کیا جیک ما کی ‘گمشدگی’ کی وجہ اُن کی تقریر ہے؟


چین کی معروف کمپنی ‘علی بابا’ کے ارب پتی شریک بانی جیک ما گزشتہ کئی ماہ سے منظرِ عام سے غائب ہیں۔ انہوں نے آخری مرتبہ 24 اکتوبر 2020 کو شنگھائی فنانشل سمٹ میں تقریر کی تھی جس میں ان کی جانب سے فنانشل ریگولیٹرز کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

جیک ما نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چین کے معاشی ریگولیٹرز غیر معقول ہیں۔ انہیں نئی سوچ اختیار کرنا ہو گی۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی بینکنگ ریگولیٹری سسٹم بیسل ایکارڈ کو بھی پرانے لوگوں کا کلب قرار دیا تھا۔

اس تقریر کے بعد سے وہ کسی بھی عوامی تقریب یا اجتماع میں نظر نہیں آئے جس کے بعد سے یہ قیاس آرائیاں اور افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ وہ ‘لاپتا’ ہو گئے ہیں جس کا سبب ان کی یہ تقریر ہے۔

ایک دور میں اسکول میں استاد رہنے والے اور ٹیکنالوجی کی دنیا کی ایک بڑی کمپنی کے شریک بانی جیک ما نے اپنی تقریر علی بابا سے منسلک فنانشل کمپنی ‘آنٹ گروپ’ کی اسٹاک مارکیٹ میں لسٹنگ سے چند روز قبل کی تھی۔

اس تقریر کے فوری بعد چینی حکام نے جیک ما کے وسیع بزنس ایمپائر کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ مبصرین کے خیال میں ممکن ہے کہ تحقیقات کی وجہ سے جیک ما نے احتیاط برتنا شروع کر دی ہو۔

دو نومبر کو چین کے فنانشل ریگولیٹرز نے ‘آنٹ گروپ’ کے ایگزیکٹوز اور جیک ما کے انٹرویو کیے تھے۔ جیک ما علی بابا یا آنٹ گروپ میں ایگزیکٹوز یا بورڈ کی رکنیت نہیں رکھتے۔

جیک ما تقریباََ پانچ فی صد شیئرز کے ساتھ علی بابا میں سب سے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ ان کے شیئرز کی مالیت 25 ارب ڈالرز ہے۔

تین نومبر کو چین کے حکام نے آنٹ گروپ کی عوامی سطح پر شیئرز کی فروخت کو معطل کر دیا تھا۔ جو پانچ نومبر کو بیک وقت شنگھائی اور ہانگ کانگ میں ہونا تھی۔ اس سے 37 ارب ڈالرز آمدنی کی توقع تھی جس کی بنیاد پر یہ دنیا کی سب سے بڑی انیشل پبلک آفرنگ (آئی پی او) بن جاتی۔

امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جنرل’ کے مطابق جیک ما کی تقریر سننے کے بعد چین کے صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ژی جن پنگ نے ذاتی طور پر آنٹ گروپ کی آئی پی او بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔

‘فنانشل ٹائمز’ کے مطابق نومبر کے آخر میں جیک ما اپنے تخلیق کردہ گیم شو کے فنالے میں بطور جج شامل نہیں ہوئے۔ ما فاؤنڈیشن کے بنائے گئے ‘افریقاز بزنس ہیروز’ نامی انٹرپرینور کے مقابلے کے دوسرے سیزن میں جیک ما جج تھے۔

جیک ما نے گیم شو سے متعلق ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ مقابلے کے شرکا سے ملنے کو بے تاب ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی رپورٹ کے مطابق علی بابا کی ملکیت علی بابا انویسٹمنٹ لمیٹڈ پر اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے قانون کی خلاف ورزی پر 14 دسمبر کو 77 ہزار 200 ڈالرز جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

چوبیس دسمبر کو چین کی سرکاری ایڈمنسٹریشن فار مارکیٹ ریگولیشن نے ممکنہ اجارہ داری پر علی بابا کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ تحقیقات شروع ہوتے ہی علی بابا کو اسٹاک مارکیٹ میں 110 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔

ایک ہفتے بعد علی بابا کی بزنس ٹو کنزیومر ویب سائٹ ‘ٹی مال’ پر اینٹی ٹرسٹ کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا گیا۔

‘بلوم برگ نیوز’ نے معاملے سے باخبر افراد کے حوالے سے چار جنوری کو بتایا تھا کہ چینی حکام نے دسمبر کی ابتدا میں جیک ما کو ملک سے باہر نہ جانے کی ہدایت کی تھی۔

اسی ہفتے علی بابا کے ترجمان نے امریکی نشریاتی ادارے’سی بی ایس نیوز’ کو بتایا تھا کہ جیک ما کہاں ہیں اس بارے میں مزید تفصیلات شیئر نہیں کی جا سکتیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں جیک ما چین چھوڑ چکے ہیں لیکن لاس اینجلس میں رہنے والے کرنٹ افیئرز کمنٹیٹر اور ماہر معاشیات جی بائی ڈونگ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جیک ما کی امریکہ میں موجودگی ناممکن ہے۔ ان کے بقول جیک ما جتنے بھی طاقتور اور امیر کیوں نہ ہوں وہ چین سے فرار نہیں ہو سکتے۔

جی بائی ڈونگ کے مطابق وہ 2018 میں امریکہ آمد سے قبل سات سال چین میں سیاسی قیدی رہے تھے۔

جی بائی ڈونگ کہتے ہیں کہ جیک ما صرف اس صورت میں چین سے باہر جا سکتے ہیں جب خود کمیونسٹ پارٹی چاہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔

جرمنی کے خبر رساں ادارے ‘ڈوئچے ویلے’ نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا کہ یہ چینی حکومت کی طرف سے چین میں طاقتور ہوتی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر گرفت مضبوط کرنے کا آغاز ہے۔

اوہائیو کی ‘یونیورسٹی آف ٹولیڈو’ کے شعبہ معاشیات کے سابق پروفیسر جینی چینگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جیک ما کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف علی بابا کی اجارہ داری کی وجہ سے نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسے حکومتی قوانین کے تحت ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے۔

ان کے بقول اگر چین کی حکومت غیر سرکاری کمپنیوں کو کمیونسٹ اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر ریگولیشن کو سیاسی بنائے گی تو اس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ علی بابا کا آن لائن شاپنگ ماڈل نہ صرف صارف کے لیے اچھا ہے بلکہ اس سے فزیکل پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جو لاجسٹک پھیلاؤ کا سبب بنا ہے۔

جیک ما کے منظرِ عام سے غائب ہونے کے بعد ان کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ کیوں کہ چین میں جب کوئی مشہور یا اپنے شعبے کی نمایاں شخصیت لاپتا ہوتی ہے تو اس کا عموماً نتیجہ گرفتاری یا سزا کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

جون 2017 میں بڑی انشورنس کمپنی این بینگ انشورنس گروپ کے سابق چیئرمین وو ژیاوہوئی لاپتا ہوئے تھے اور دوبارہ مارچ 2018 میں ٹرائل میں نظر آئے۔ اُنہیں معاشی بدعنوانی اور اختیارات کے نا جائز استعمال پر 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سال 2020 کے آغاز میں سرکاری پراپرٹی ڈیویلپر ہوا یوآن کے سابق چیئرمین رین چیچیانگ لاپتا ہوئے تھے۔ رین نے کرونا وائرس کی وبا سے اچھے طریقے سے نہ نمٹنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ستمبر میں رین کو مبینہ بدعنوانی پر مجرم قرار دیا گیا۔ ان پر غیر قانونی طور پر تقریباً 74 لاکھ ڈالر کمانے، ایک لاکھ 84 ہزار ڈالر رشوت لینے اور 2003 سے لے کر 2017 تک پبلک فنڈز سے 89 لاکھ ڈالرز خورد برد کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa