اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے


افسوس کہ ایک بار پھر ہزارہ کمیونٹی پر قیامت ٹوٹ پڑی اور وہ پہلے کی طرح لاشوں کے ڈھیر پہ منفی درجہ حرارت میں ماتم کناں ہے۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ہی یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی مقتل کو سرخرو کر کے سونے لگتے ہیں تو ان سے پھر لہو کا خراج مانگ لیا جاتا ہے۔ اب تو دفنانے والے مردوں کا بھی قحط پڑ گیا ہے۔ پھر حکومت کی بے حسی تو اس حادثے سے بھی بڑا حادثہ ہے۔ ارباب اختیار اپنے فرائض بھول چکے۔ ایسے واقعات میں سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے والے اور احتجاج کا نیا فلسفہ متعارف کروانے والے آج اپنے تمام اصولوں سے منحرف ہیں۔

ایک طرف زندگی میتوں پہ رو رہی ہے تو دوسری طرف حکمران زخموں پہ مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی میں مصروف ہیں۔ وہ جو کہا کرتے تھے کہ جس مقتول کے قاتل معلوم نہ ہو سکیں تو حکمران وقت اس کا قاتل تصور ہو گا، آج مظلوموں کو بلیک میلر قرار دے رہے ہیں۔ سارے چور، ڈاکو، بد عنوان اور قومی مجرمان مظلوموں کے ہاں دکھ بانٹنے جا چکے مگر صادق و امین اور دیانت و انسانیت کے پیکر کو اپنے پسندیدہ مشاغل سے فرصت نصیب نہیں۔

اس سے بڑھ کر دکھ کی بات کیا ہوگی کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ وزیراعظم صاحب لاشوں کی تدفین سے قبل وہاں جانے سے انکاری یا پھر خائف ہیں کیونکہ مبینہ طور پر ان کے روحانی پیشواؤں نے کچھ عرصہ تک میتوں کے قریب جانا برا شگون بتایا ہے۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسی قیامت میں بھی سیاسی اور مسلکی سکورنگ جاری ہے۔ کچھ کینہ پرور حضرات ہزارہ برادری کے عقائد کو لے کر حکومت کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان حالات میں جون ایلیا کا شعر کتنا صادق آتا ہے،

اب نہیں کوئی بات خطرے کی، اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

اب تو لوگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ریاست مدینہ، ملائیشین ماڈل، ترک ماڈل یا پھر یورپین سٹائل میں سے کون سا انداز حکمرانی ہے؟ ذرا تعصب کی عینک اتار کے دیکھیے کہ نیوزی لینڈ کی عیسائی وزیراعظم کے سامنے ہم سب بحیثیت قوم کتنے پست دکھائی دے رہے ہیں۔ اب اگر اتنی ایمان دار حکومت، سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس محکمے اتنے بڑے سانحہ کے ذمہ داران کو بے نقاب نہیں کر سکتے تو پھر اس کے سوا کہنے کو کیا رہ جاتا ہے کہ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے، ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).