رضیہ سلطانہ اور معاصر علما: کیا علما رضیہ سلطانہ کو ناپسند کرتے تھے؟



بر عظیم کے مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پہلی خاتون مسلم حکمران کا سہرا ان کے سر ہے۔ وہ چاہے رضیہ ہو یا بینظیر۔ ایک بادشاہانہ نظام حکومت کے تحت حکمران بنیں تو دوسری جمہوری نظام حکومت کے تحت۔ ایک کا پایہ تخت دہلی تو دوسری کا اسلام آباد۔ لیکن دونوں میں دو مماثلتیں تھیں ایک دونوں کو معزول کیا گیا اور دوسرا دونوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ دونوں کو قتل کر دیا گیا وہ بھی ایسے موقع پر جب دونوں دوبارہ حکمران بننے کی کوشش کر رہی تھیں۔

چونکہ دونوں کا نظام حکومت مختلف تھا لہذا ایک لشکر کے ذریعہ برسر پیکار تھی تو دوسری کو ووٹ درکار تھے۔ بینظیر بھٹو کو معاصر علما کی مخالفت کا سامنا بھی تھا لیکن کیا رضیہ سلطان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سو، دو سو، تین سو یا ہزار سال بعد آنے والے مورخین یا لکھاریوں کو پڑھنے کی بجائے معاصرین کی طرف رجوع کریں کیونکہ تاریخ کا یہ متفقہ قاعدہ ہے کہ ہمیشہ معاصرین کو پہلے اہمیت دی جائے گی اور انہی کو سامنے رکھ کر تاریخ کی اصلاح کی جائے گی الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل سامنے آ جائے جو معاصرین کو ناقابل قبول بنا دے۔

رضیہ سلطان کے معاملے میں اللہ کا شکر ہے ہمارے پاس ”طبقات ناصری“ کی صورت میں معاصر شہادت موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس کی طرف جائیں تھوڑا سا تعارف ضروری ہے۔

طبقات ناصری کے مولف ”ابو عمرو عثمان بن سراج الدین جوزجانی“ ہیں جو ”منہاج الدین سراج“ کے نام سے مشہور ہیں۔ ابتدا میں گوالیار کے قاضی تھے بعد میں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے عہدے پر تعینات ہوئے۔ ان کی مجلس میں سلطان المشائخ نظام الدین اولیا رحمت اللہ بھی شرکت فرماتے ایک بار تو ان کے اشعار سن کر وجد میں آ گئے تھے ( اخبار الاخیار) یہی نہیں سلطان المشائخ انہیں شیخ السلام کے عہدے کا اہل سمجھتے تھے (فوائد الفواد) ۔

رضیہ سلطان نے انہیں مدرسہ ناصریہ کا ناظم مقرر کیا ( جس کا ذکر کتاب کے صفحہ 447 پر موجود ہے ) اس کے علاوہ صدر الصدور کا عہدہ بھی ان کے پاس تھا۔ ان سب چیزوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا منہاج الدین سراج صرف مورخ نہ تھے بلکہ عالم و فقیہ بھی تھے اس کے علاوہ شاہی خاندان کے روز و شب سے بھی واقف تھے۔ اب جب اتنا بڑا عالم و فقیہ جس کی تعریف سلطان المشائخ کرے التتمش کی اس بات پر کہ اس نے رضیہ کو اس لیے نامزد کیا کیونکہ اس کے بیٹے نا اہل ہیں اور نظام حکومت نہیں چلا سکتے پر کہتا ہے :

”حال ہم بر این جملہ بود، کہ آن پادشاہ سعید دانا فرمود“ (طبقات ناصری، صفحہ 446، طبعہ کابل )
سچ یہ ہے کہ حقیقت وہی تھی، جو بادشاہ سعید و دانش نے بیان کی

رضیہ سلطان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سراج الدین کہتے :

”سلطان رضیہ طاب مرقدھا پادشاہ بزرگ و عاقل و عادل و کریم عالم نواز و عدل گستر و رعیت پرور، و لشکر کشی بود، بہ ہما اوصاف گزیدہ کہ پادشاھان را باید موصوف بود“ ( صفحہ 445 )

رضیہ سلطان جلیل القدر بادشاہ تھی، وہ عاقل، عادل، کریم، عدل پر قائم رہنے والی، لوگوں کو نوازنے والی، لشکر کشی کی خصلت رکھتی تھیں، نیز وہ تمام خوبیاں جو ایک بادشاہ میں چاہیے ان کی وہ حامل تھیں۔ ( ترجمہ لفظی نہیں مفہومی ہے )

ایک خاص طبقہ کا موقف ہے کہ رضیہ سلطان سے علما کو نفرت تھی وہ انہیں برداشت نہیں کرتے تھے سوال یہ ہے کہ جس سے آپ کو نفرت ہو کیا آپ اس کے بارے میں ایسی بات کرتے ہیں۔ یہ بات یہاں یاد رہے کہ یہ معاصر شہادت ہے نا کہ دو سو سال بعد آنے والے کسی مورخ کا بیان۔ آگے چل کر علامہ منہاج الدین رضیہ سلطان کے متعلق لکھتے کہ اس نے پردہ ترک کر دیا اور مردوں جیسا لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا، لوگوں سے خود ملنے لگیں اور ہاتھی پر جب بھی سوار ہوتی لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ علامہ لکھتے

”چنان اتفاق افتاد کہ سلطان رضیہ از لباس عورات و پردہ بیرون آمد و قبا بست و کلاہ نھاد، و در میان خلق ظاھر شد، و بر پشت پیل در وقت بر نشستن، ہمہ خلق او را ظاھر می دیدند“ ( صفحہ 447 )

مطلب وہی ہے جو اوپر میں نے لکھا۔ اب ایک طبقہ یہاں سے سیکولر ازم نکالنے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھو رضیہ سیکولر تھیں۔ ان کا بھی قصور نہیں ان کے ہاں سیکولر ازم کا یہی معیار ہے۔ حالانکہ کسی حوالے سے اس سے رضیہ کا سیکولر ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن رضیہ کو سیکولر ثابت کرنے کے چکر میں یہاں ایک نہایت اہم نکتہ نظرانداز کر گے میری ناقص معلومات کی حد تک کسی نے بھی اس نکتہ پر غور نہیں کیا۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ ایک راسخ العقیدہ عالم دین ہمیں بتا رہا ہے کہ رضیہ نے پردہ ترک کر دیا تھا اور مردوں والا لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا تھا۔

ہم پوچھتے ہیں پھر کیا ہوا؟ کیا علما بھڑکے نہیں؟ خود ایک عالم باپ کے عالم بیٹے نے کوئی اعتراض نہیں کیا؟ بابا فرید گنج شکر بھی خاموش رہے؟ بعد میں آنے والے سلطان المشائخ نظام الدین اولیا انہوں نے بھی کچھ بیان نہ کیا؟ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت کے علما و مشائخ نے رضیہ کے اس عمل پر کوئی نکیر نہیں کی۔ رضیہ کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے اگر اس بحث کو اٹھاتے تو شاید کچھ فائدہ ہوتا لیکن اس سے ان کے اس بیان پر زد پڑھتی ہے کہ ”ملا کو رضیہ سے نفرت تھی، وہ ملا کی آنکھ میں کھٹکتی تھی، ایک ظالم سماج میں جہاں ملا کی حاکمیت ہے وہ حکومت کے لیے آئی“ کیا کیا کہانیاں بناتے ہیں۔

یہ سب باتیں لکھتے وقت وہ یہ بھول جاتے کہ تاریخ اور افسانہ میں فرق ہوتا ہے۔ افسانے میں جو آپ کا دل کرے آپ لکھ سکتے لیکن تاریخ روایت و درایت کے اصول پر چلتی ہے۔ اگر کوئی بات روایت و درایت کے اصول پر اتر جائے تو منظور ورنہ اس کی جگہ ردی کے ڈھیر میں ہے۔ افسانے، ناول، فلم، ڈرامہ ان سے تاریخ ثابت نہیں ہوتی۔ آج کوئی عام لڑکی جینز یا ٹائٹ پہن لے تو ہمارے علما بھڑک اٹھتے اور وہاں حکمران وقت پردہ ترک کر چکی تھیں اور علما مجال ہے کچھ بولے ہوں۔ حد تو اس وقت ہو گی جب رضیہ کے اس عمل کے باوجود مولانا منہاج نے اسے رحمت اللہ لکھا۔

یہ تو تھے خیر علما سوال یہ ہے صوفیا کس جانب تھے؟ کسی صوفی بزرگ کا بیان تو ہمیں نہیں ملتا رضیہ کی حمایت میں ( معلومات کی کمی کی وجہ سے ) لیکن کچھ چیزیں ہیں جن سے کسی نتیجہ پر ہم پہنچ سکتے ہیں۔

بابا فرید الدین گنج شکر اپنی بیٹی بی بی شریفہ کے متعلق کہتے :
اگر را خلافت و سجادہ مشایخ دا دن ردا بو دے من بی بی شریفہ می دادم ( سیر الاولیا، صفحہ 175 )

یعنی اگر خلافت عورت کو دینا جائز ہوتا تو میں بی بی شریفہ کو اپنا خلیفہ بناتا۔ اسی طرح فوائد الفواد میں شیخ نظام الدین اولیا نے ( جو بابا فرید گنج شکر کے خلیفہ تھے ) ان کے جو ملفوظات بیان کیے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ اس وقت کے صوفیہ نے بھی اسے برا خیال نہیں کیا۔ کچھ کا کہنا ہے رضیہ سلطان خود بھی بابا شاہ ترکمان ( خلیفہ شہاب الدین سہروردی) کی عقیدت مند تھی مجھے اس کا کوئی ثبوت تو نہ ملا لیکن جس طرح ملا نور ترک کو نذرانے میں انہوں نے سونا بھیجا اس سے ہم اندازہ لگا سکتے کے صوفیا کو وہ عزت اور احترام دیتی تھیں۔

آخر میں سراج الدین منہاج نے رضیہ کے قتل کو شہادت کہا:
” شہادت سلطان رضیہ، روز سہ شنبہ بیست و پنجم ماہ ربیع الاول سنہ ثمان و ثلاثین و ستماۂ بود (صفحہ 449 )
سلطان رضیہ کی شہادت، 22 ربیع الاول 638 ہجری کو منگل کے دن ہوئی

ان تمام چیزوں سے یہ بات ثابت ہوتی کہ رضیہ سلطان کو اپنے وقت کے علما کی حمایت حاصل تھی۔ کیونکہ اگر علما کو اس سے نفرت ہوتی جیسا کچھ لوگوں کا دعوی ہے تو ضرور ایسے علما کے نام سامنے آتے لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ شاہ جہان کے دور کے مشہور و معروف حنفی عالم و محدث شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے :

ایں قصہ بغایت عجیب و غریب است کہ باوجود مونث بر خلاف حکم شریعت ماورا ولی عہد گروا نید ند، امرا و مشائخ آں عصر آنرا مسلم داشتند ”( تاریخ حقی، مخطوطہ)

یعنی ایک عورت کو شریعت کے خلاف جا کر ولی عہد بنایا جانا اور علما و مشائخ کا اسے قبول کر لینے کو شیخ صاحب عجیب و غریب بات کہہ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں اس میں کچھ عجیب و غریب نہیں۔ یہ قصہ یہی ختم نہیں ہوتا بلکہ 100 سال بعد آنے والے ابن بطوطہ ہمیں بتاتے کہ رضیہ کی قبر زیارت گاہ بن گی ہے۔

اب آخر میں کچھ سوال اگر ”ملا“ رضیہ سے ناخوش تھا تو رضیہ سلطان کے دور کے کسی عالم کا بیان ہمیں کیوں نہیں ملتا؟ رضیہ سلطان کے پردہ ترک کر کے مردوں کا لباس پہننے پر علما کیوں خاموش رہے حالانکہ یہ بڑا اچھا موقع تھا؟

مجھے کسی دلدار کے جواب کا انتظار رہے گا۔

آخر میں صرف اتنی گزارش ہے کہ تاریخی واقعات کو ان کے پس منظر میں دیکھیں نا کہ آج کے حالات دیکھ کر قیاس کریں کہ اگر آج یہ سب ہو رہا ہے تو ضرور اس وقت بھی ایسا ہوگا۔ اگر آج ہمارے دور میں ایک چیز رائج ہو گی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس دور کی ہم بات کر رہے اس وقت بھی یہی صورت حال ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).