اے بے یارومددگارمعصوم مزدورو ,مَیں شرمندہ ہوں!


یہ دوہزار بارہ کی بات ہے۔جدید اُردو کہانی کے اہم ترین افسانہ نگار منشایاد کی یاد میں گوجرانوالہ میں منفرد افسانہ وناول نویس اسلم سراج الدین نے ایک پروگرام ترتیب دیا اور مجھے حکم فرمایا کہ اس اہم تقریب کی صدارت کرنی ہے۔کہاں جدید کہانی کا مینار منشایاد اور کہاں مَیں ایک عام آدمی اور معمولی افسانہ نگار،یوں معذرت کی کوشش کی ،مگر اسلم سراج الدین کے محبت بھرے حکم سے پھِرا نہ جاسکا،مَیں لیہ سے گوجرانوالہ پہنچ گیا۔

تین سے چار گھنٹے کی تقریب تھی،شہر بھر سے منشا یاد سے محبت کرنے والے جمع ہوئے ،مگر ایک معتبر ادبی شخصیت تشریف نہ لائی ،رات کو ہم چند دوست بیٹھے تھے تو مَیں نے اسلم سراج الدین سے پوچھا کہ فلاں ادیب نظر نہیں آئے تو اُنھوں نے  کہا کہ’’ اس جہان سے سِدھارنے والے کی موت کا اعلان سب کے لیے ہوتا ہے‘‘ یعنی دُکھ اورپھر موت کے دُکھ میں اور مرنے والے کے جنازے میں بغیر کسی اعلان اور بلاوے کے شامل ہونا ،تہذیب سے وابستہ انسانوں کی خاصیت ہوتی ہے۔

ہزارہ برادری کے بے گناہ موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اور اس ملک کے سب سے زیادہ اہم اور ذمہ دار شخصیت کی جانب سے دُکھ میں شامل ہونے کے لیے شرط رکھ دی گئی ایک وزیرِ کے مطابق کہ وزیرِ اعظم جو فیصلہ کرلیں ،اُس پر قائم رہتے ہیں‘‘کاش وزیرِ اعظم اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ وہ کسی قاتل کو نہیں چھوڑیں گے،کسی ظالم کو اُس کے مذموم ارادوں کی تکمیل نہیں کرنے دیں گے ،کسی بے گناہ کو بے موت مرنے نہیں دیں گے اور کسی بھی شہری کو دُکھ کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے ۔

وزیرِ اعظم کا روّیہ مذکورہ حادثہ کے ضمن میں جہاں سمجھ سے بالاتر رہا،وہاں وفاقی و صوبائی وزرا ء کے بیانات قطعی طورپر حوصلہ افزایا صورتِ حال سے مطابقت کے حامل نہیں رہے۔یہاں ہم اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کی بات نہیں کرتے کہ اُن کی جانب سے اس حادثہ کو کس قدر سنجیدگی یا غیر سنجیدگی سے لیا گیا ،ہم حکومت سے جڑے وزراء کی با ت کریں گے۔ویسے ہمارے ہاں یہ عجیب وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو حکومتی سطح پر جس طرح کا ریسپانس دیا جاتا ہے وہ کسی گلی محلے میں ہونے والے حادثہ میں اُس گلی محلے کے عام لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے ریسپانس جیسا ہوتا ہے۔

ہمارے گلی محلوں میں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوجائے اور معاملہ وہاں کے بڑوں تک پہنچے تو جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہوتی ہے ،اُس کو نصیحتیں کی جاتی ہیں ،ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور زیادتی کرنے والے شخص کے رُعب ودبدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ،آخر کار مظلوم شخص معاملے سے دستبردار ہو جاتا ہے ،یا پھر اُس کو معمولی سی رقم دے کر معاملہ ختم کردیا جاتا ہے ،ایسا ہی حکومتی سطح پر ہوتا ہے ،کوئی حادثہ ہوتا ہے ،حکومت دیکھتی ہے کہ وہاں سے احتجاج تو نہیں پھوٹ رہا ،اگر احتجاج پھوٹنے کا خطرہ نہ ہوتو چند وزراء ہمدردانہ بیانات داغ دیتے ہیں اگر احتجاج پھوٹنے کا اندیشہ ہوتو فوری طورپر ایک آدھ متعلقہ وزیرجائے حادثہ پہنچ جاتا ہے اور متاثرین کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

جنوری دوہزار اَٹھارہ میں قصور میں زینب کیس سامنے آیاتو مجھے وہاں ادارے کی جانب سے رپورٹنگ کے لیے بھیجا گیا ،وہاں مَیں نے کچھ لوگوں سے یہ سوال کیا کہ زینب سے پہلے سات بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو متعلقہ ڈی پی او نے کیوں احتیاط نہ کی یا وہ ہر واقعہ سے کیسے نمٹتے تھے؟ایک ڈی پی او کے بار ے میں بتایا گیا ،جس کے دور میں تین سے چار بچیوں کے ساتھ زیادتی کے کیس رُونما ہوئے تھے ،کہ موصوف واقعہ کے فوری بعد متاثر ہ بچی کے گھر پہنچ جاتے اور اُس بچی کے والدین کے پائوں پڑجاتے ۔

غریب لوگ جن کے پائوں میں ایک پولیس کا بڑا افسر پڑا ہو،وہ تو لمحہ بھر کے لیے اپنی بچی کا غم تک بھول جاتا۔ہزارہ برادری میں ظلم رُونما ہوا ،وہ اپنے پیاروں کو دفنانے سے انکاری ہوئے تو ایک دو وزراء فوراًپہنچ گئے اور میتیں دفنانے کی درخواست کرنے لگے۔عجیب با ت ہے کہ حکومت نے قاتلوں پر توجہ نہ دی، سارا زور اس بات پر رہا کہ کسی طرح ورثاء اپنے پیاروں کی میتیں دفنا دیں۔حتیٰ کہ ایک بیان بھی ایسا نہ دیا گیا ،جس سے قاتلوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار ملتا ہو۔

وزیرِ اعظم سمیت کوئی ایک وزیرِ بھی ایسا نہیں ،جس نے قاتلوں کوللکارا ہو یا مرنے والوں سے ہمدردی کے ایسے الفاظ کہے ہوں ،جس نے دلوں کو چھولیا ہو۔لیکن ٹھہریں !وزیرِ اعظم ہائوس سے ایک ایسی ٹوئٹ کی گئی ،جووزیرِ اعظم ہائوس کے درودیوار کو چیرتی کوئٹہ کی ٹھنڈی زمین سے ٹکرا کر ہزار برادری کی خواتین اور معصوم بچیوں کا نوحہ بن گئی اور مردوں کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ گئی۔وہ ٹوئٹ ایک ایسے شخص کی تھی ،جو سرگودھا شہر میں اپنی constituencyرکھتا ہے۔

ندیم افضل چن! تمہاری یہ ٹویٹ’’اے بے یارومددگارمعصوم مزدوروں کی لاشو…مَیں شرمندہ ہوں‘‘اگرچہ وزیرِ اعظم ہائوس کی بلندو وسیع عمارت کی بے بسی کو واضح کرتی ہے مگر ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے جو بے بسی کی عمارت میں مقیم تو ہے مگر اُس کا دِل درد سے ڈوبا ہے اور وہ زبان بھی رکھتا ہے۔کاش ایسا ہوتاکہ مظلوموں کے ورثاء اپنے پیاروں کو دفن کرتے تو اُس سے پہلے قاتل اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔مگر اس دھرتی پر تو بتدریج قاتل سے محبت کا جذبہ پروان چڑھا ہے،یہ وجہ ہے کہ ہم قاتلوں کا ذکر نہیں کرتے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).