پنڈی اور اپوزیشن: کیا یہ ہو سکتا ہے؟


کبھی لاشوں کا احتجاج کہیں دیکھا ہے۔ وطن عزیز میں ابھی گذشتہ ہفتے ہی یہ سب کچھ ہوا ہے۔ ہزارہ قوم کے 11 اور سُپوت مارے گئے۔ کہیں سے شیعہ ہزارہ لکھنے پر تعصب اور تفرقے کے طعنے کہیں سے افغانی برانڈ، الزامات مگر ان تمام باتوں کے باوجود فضا سوگوار رہی تاہم ملک کا وزیراعظم لاشوں سے بلیک میل نہ ہوا۔

یہ سب بیرونی ہاتھ ہے، ہمسائے اچھے نہ ملے، اپوزیشن بھی ٹھیک نہیں، یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ لاشوں کو سامنے رکھ کر احتجاج کیا جائے، یہ کیا طریقہ ہے کہ تدفین وزیراعظم کی آمد سے مشروط کر دی جائے، کبھی لاشوں پر بھی شرطیں لگائی جاتی ہیں۔

ایک صفحے کی حکومت ہو تو ایرے غیروں کی دھمکیوں میں آنا بھی نہیں چاہیے۔ مگر جناب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم جو بھی ہو جیسا بھی ہو عوام اُسے اپنا مائی باپ ہی سمجھتے ہیں۔

سانحے اچانک نہیں ہوتے، سالوں پرورش پانے کے بعد جنم لیتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی کہ ہمیں ہر روز کسی نئے امتحان کا سامنا ہے۔ ہزارہ ٹاؤن کی بے حساب لاشیں اور قبریں قومی سانحوں کی داستان تو بیان کر رہی ہیں مگر گدشتہ ہفتے کی 11 لاشیں کئی مردہ ضمیروں کو بھی بے نقاب کر گئی ہیں۔

دوسری جانب کی سیاست کے رنگ بھی نرالے ہیں۔ اپوزیشن اپنی تحریک لیے قریہ قریہ نگری نگری گھوم رہی ہے، واضح ایجنڈے کے ساتھ غیر واضح لائحہ عمل، پنڈی کے خلاف محاذ اور پنڈی پر ہی نگاہ ناز، کبھی ایک قدم پیچھے کبھی ایک قدم آگے، جارحانہ آغاز کے بعد دفاعی انداز۔

سینیٹ انتخابات ہوں یا استعفوں کا معاملہ اپوزیشن بمشکل ایک صفحے پر واپس آئی ہے جہاں سکھر جیل میں قید خورشید شاہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے رہے۔ استعفے دینے کے معاملے پر مولانا اور ن لیگ جہاں پھنسے، زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کو انھیں سمجھانے کے لیے خورشید شاہ کی مدد لینا پڑی۔ ان پیغامات میں یہ بات واضح تھی کہ استعفوں کی صورت آنے والے دنوں میں پارلیمانی سیاست سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر پاور پوائنٹس کے ذریعے اپوزیشن کو یہ بتانے میں کامیاب ہوئے کہ سینیٹ میں واک اوور دینے اور اسمبلیوں سے استعفوں کی صورت اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ بہر حال یہ بات ن لیگ اور مولانا کی سمجھ میں آ گئی اور یوں تمام اپوزیشن ایک صفحے پر لوٹ آئی۔

یہ بات تو طے ہے کہ اپوزیشن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قلیل اور طویل المدتی مگر منظم جنگ لڑنا ہو گی۔ گو کہ حالیہ چند واقعات نے حکومت کی گرتی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے تاہم مقتدر حلقے تاحال گومگو کی سی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے پی ڈی ایم کو متعلقہ اداروں کو ’اپروچ‘ کرنے اور پی ڈی ایم اور مولانا کو پنڈی میں ’چائے پانی‘ کی ذومعنی دعوت اس دباؤ کا اظہار ہے جس کا ادارے کو سامنا ہے اور وہ انداز بھی جو انھوں نے اپوزیشن کو دکھانا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے فی الحال استعفے نہ دینے اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے سے چند قوتوں کو یقیناً مایوسی ہوئی ہے تاہم اس پورے معاملے میں حزب اختلاف کے لائحہ عمل کی کمزوریوں کی بھی نشاندہی ہوئی ہے۔

ایک طرف حکومت کو عوامی محاذ پر مسلسل مایوسی مل رہی ہے تو دوسری جانب مقتدر حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام بھی کہ دن بہ دن بگڑتے سیاسی حالات، معاشی معاملات اور امن و امان کے واقعات حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کے لیے بھی چیلنج بن رہے ہیں۔

ایسے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی آپشنز میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پنڈی سیاسی جماعتوں کی ’چائے پانی‘ سے آؤ بھگت کرے اور اسی ٹی پارٹی میں گرینڈ مکالمے کا آغاز کرے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).