رؤف طاہر قطر اور سانحہ مچھ – مکمل کالم


رؤف طاہر چلے گئے عشروں پر محیط تعلق یاد ماضی بن گیا۔ ڈاکٹر لبنی ظہیر نے مطلع کیا، سکتہ سا ہو گیا۔ وہ تمام ارادے جو وطن عزیز کی نظریاتی سیاست کی تاریخ کو ضبط تحریر میں لانے کے ان کے ساتھ بنائے تھے یاد آنے لگے کہ وہ خود ایک تاریخ بن گئے۔ نظریاتی صحافت کا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا ان سے تعلق خاطر ان کے زمانہ رپورٹنگ سے قائم ہو گیا تھا جب وہ ہم نوآموز سیاستدانوں کی خبریں بھی شائع کر دیا کرتے تھے اور بعد میں جب وہ کالم نگاری کی طرف آ گئے تو راقم پر کالم بھی تحریر کرتے رہیں۔

جب میں نے انہیں اپنے ساتھ اپنے وفد میں چین چلنے کی دعوت دی تو بہت خوش ہوئے اور اپنے کالم میں مجھے میر سفر کا خطاب دے ڈالا۔ کیا محبت بھری شخصیت تھی۔ وہ ایک وقت میں سعودی عرب چلے گئے۔ یہ 2003 کی بات ہے کہ میں جدہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی غرض سے ان کی قیام گاہ پر موجود تھا کہ یک دم کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ گھوم کر دیکھا تو رؤف طاہر مسکرا رہے تھے ملاقات کچھ مدت بعد ہو رہی تھی بہت خوش ہوئے کہ میں ان ہی کی مانند نظریاتی معاملات میں استقامت پسند ہوں اور مشرف کی آمریت مجھے بھی خوف زدہ نہیں کر سکی ہے۔

اتنی دیر میں میاں نواز شریف بھی تشریف لے آئے جن کے ہم دونوں منتظر تھے۔ ملاقات یوں بہت یادگار ہے کہ جن موضوعات پر گفتگو رہی وہی سوالات بدقسمتی سے آج بھی وطن عزیز کو درپیش ہے۔ نائن الیون ہو چکا تھا مشرف حکومت امریکہ کے آگے لیٹ چکی تھی اور قوم کو یہ مژدہ سنایا جا رہا تھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار موجود نہیں تھا اور اب ہم دہشتگردی کے حالات اور الزامات سے باہر نکل آئیں گے۔

جب کسی حکومت کی خارجہ پالیسی ہو کے بس تسلیم کے سوا اور کچھ ممکن ہی نہیں تھا تو اس سے اس کے ذہنی افلاس کی ترجمانی ہو رہی ہوتی ہے کیا پاکستان امریکہ کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد دہشت گردی کے معاملے سے نکل پائے گا اور کیا دنیا کی نظروں میں یہ الزام قصہ پارینہ قرار پائے گا۔ اس ملاقات میں عرض کیا تھا کہ جب کوئی درمیانی راستہ اختیار نہ کیا جائے تو مطالبات کی فہرست شیطان کی آنت مانند بڑھتی چلی جاتی ہے اور بدقسمتی سے ہوا بھی ایسا ہی اور مستقل یہی کیفیت طاری ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی کارگزاری سب کے سامنے ہے۔ ‏

جب میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں تو اس سے کسی قاری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کیا ڈپلومیسی اختیار کر سکتا تھا؟ امریکہ کی طاقت بہت زیادہ ہے اور ہمارا ہچکولے لیتا سیاسی نظام مزید سہولت فراہم کر دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے اگر ہم گرد و نواح پر نظر دوڑائیں اور قرب و جوار کے ممالک کی خارجہ حکمت عملی کا مطالعہ کریں تو قطر ایک ایسے ملک کے طور پر صاف نظر آئے گا کہ جس نے اپنے سے زیادہ طاقتور ملک کے سامنے جھکنے کی بجائے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ اس سے معاملات سلجھنے کی جانب گامزن ہو چکے ہیں۔

خلیج تعاون کونسل کے ممالک کے قطر سے تعلقات معطل ہو گئے تھے۔ ان ممالک کی یہ شدید خواہش تھی کہ قطر ایران سے تعلقات کی گرمجوشی کو سرد مہری میں تبدیل کر دے اور کچھ دیگر معاملات سے بھی کنارہ کش ہو جائے۔ اپنے مطالبات منوانے کی غرض سے قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مگر قطر نے ایسی کسی ڈکٹیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اپنی پوزیشن کو برقرار رکھتے ہوئے خلیج تعاون کونسل کے ممالک سے تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں رہا اور بالآخر اس میں کامیاب بھی ہو گیا کیونکہ تلخی برقرار رکھنا کسی کے مفاد میں بھی نہیں تھا۔

راقم الحروف نے ان تعلقات کی بحالی کی اطلاع اسی ادارتی صفحے پر چند ہفتوں قبل دے دی تھی۔ پاکستان کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے لیکن پاکستان اس سے کیا سبق حاصل کرے گا؟ امیر قطر پاکستان تشریف لائے۔ قطر کے سابق سفیر مبارک المنصوری نے پاک قطر تعلقات پر بہت کام کر رکھا تھا۔ کچھ معاملات پر دونوں برادر ممالک کے درمیان مفاہمت بھی ہوئی قطر کے موجودہ سفیر انتہائی کوشش کر رہے ہے کہ اس مفاہمت کو عملی شکل دی جا سکے مگر موجودہ حکومت کی جانب سے ٹس سے مس نہ ہونے کا رویہ یہاں بھی سامنے آ رہا ہے۔

اس ملاقات میں دوسرا موضوع بلوچستان کے حالات تھے. ابھی اکبر بگٹی کا سانحہ نہیں ہوا تھا مگر بلوچستان میں حالات دوبارہ خراب ہونے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ہزارہ برادری پر حملوں کا ایک تسلسل ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ رؤف طاہر نے ہی جنرل موسی خان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے ساتھ شروع ہونے والے بہیمانہ سلوک کا تذکرہ کیا کہ یہ بلوچستان کے حالات میں ایک نئی اندوہناک تبدیلی ہے۔ نواز شریف بھی بہت دل گرفتہ تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے اپنے دورحکومت میں اس عفریت کا ریاستی طاقت کے ذریعے پورے ملک میں مقابلہ بھی کیا۔

اس اندوہناک تبدیلی پر بات کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ دہشت گردی ایک ہتھیار کے طور پر طاقتوروں کے ہاتھوں میں موجود رہی ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ہزارہ برادری کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کو صرف ایک مخصوص رنگ میں دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ پر کھنا اس بات کو ہے کہ اس قتل عام کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے وہ کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے؟ اور وہ ماسٹر مائنڈ اتنا طاقتور ہے کہ مسلسل یہ خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

یہ معاملہ صرف ہزارہ برادری تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت آتی جائے گی۔ ہم نے بعد میں دیکھا کہ یہ ہتھیار مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد مرحوم کے خلاف تک استعمال کیا گیا۔ دوران گفتگو رؤف طاہر نے کہا تھا کہ یہ ہتھیار ہزارہ برادری کے خلاف نہیں درحقیقت وطن عزیز کے خلاف استعمال ہو رہا ہے جب مچھ میں ہزارہ کے کانکنوں کی شہادت کی خبر کانوں میں پہنچی تو رؤف طاہر کے یہی الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).