فوجی وضاحت کے بعد ابہام کی گنجائش نہیں


”پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ہمارے کسی کے ساتھ کوئی بیک ڈور رابطے نہیں، ہم پر لگائے گئے الزامات میں کوئی وزن نہیں، پاک فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے، ہمیں سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے، پاک فوج پر الزامات اچھی بات نہیں لیکن تشویش ضرور ہے، پی ڈی ایم کی راولپنڈی آنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور اگر وہ پنڈی آئے تو چائے پانی پلائیں گے اور اچھی دیکھ بھال کریں گے“ ۔

پاکستانی فوج کی جانب سے یہ ساری وضاحتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب ان پر صرف اپوزیشن کے رہنماؤں اور پی ڈی ایم کی قیادتوں کی جانب سے ہی سیاست میں مداخلت کے الزامات نہیں لگائے جا رہے بلکہ خود حکومت میں شامل اہم عہدیداروں، حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھی مسلسل اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں افواج پاکستان سے رابطے میں ہیں۔

پاک فوج کے ترجمان نے اس قسم کی تمام قیاس آرائیوں اور اپنے اوپر اٹھائے گئے سارے ابہاموں کو رد کرتے ہوئے پورے پاکستان کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ فوج نہ تو سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے اور نہ ہی اسے سیاست میں الجھایا جائے۔ اگر کسی کو یہ شکایت ہے کہ وہ انتخابی عمل میں کیوں شامل ہوتی ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرے اس لئے کہ اگر وہ کسی الیکشن کے عمل میں حصہ لیتی بھی ہے تو الیکشن کمیشن کی درخواست پر ایسا کرتی ہے۔

پاک فوج کی جانب سے اب تک کی جانے والی بہت ساری باتوں میں جو ایک نئی بات سامنے آئی ہے، سیاستدانوں کے لئے اس میں کتنی اچھی یا بری خبر پوشیدہ ہے، اس کا جواب تو سیاستدان ہی دیں گے لیکن پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے اس بات کا کہا جانا کہ فوج ایک ”ذیلی ادارہ“ ہے، ایک ایسی بات ضرور ہے جس کو سن کر صرف سیاستدان ہی نہیں، ملک کے عوام بھی ضرور حیران ہوئے ہوں گے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک کے جتنے بھی ادارے ہوتے ہیں وہ سب ہی حکومت کے ماتحت ہوا کرتے ہیں۔ فوج تو ویسے ہی بہ لحاظ نظم و ضبط، بہت اعلیٰ معیار رکھتی ہے اس لیے اس کی جانب سے کسی بھی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کا گمان بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن 73 برسوں کی پاکستانی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو اس ”بد گمانی‘‘ سے باہر بھی نہیں نکلا جا سکتا۔ اگر اس بات کو من و عن درست مان لیا جائے کہ فوج کا پاکستانی سیاست سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا تو پھر ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار کو سیاست کے کن خانوں میں شمار کیا جائے گا۔

پاک فوج کے ترجمان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر تشویش کا اظہار بجا سہی لیکن اگر ہر جانب سے ایک ہی بات الفاظ بدل بدل کر بار بار کی جا رہی ہو تو پھر اس بات پر صرف تشویش کا اظہار ہی کافی نہیں بلکہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جانا زیادہ سود مند ہو گا۔ کسی زمانے میں ہر وہ بات جو بہت ہی محتاط الفاظ میں کوئی کوئی ہی کیا کرتا تھا اب اس بات کو بہت کھل کر اور واضح لفظوں میں ہزاروں لاکھوں افراد کے مجمع سے خطابات میں کہا جا رہا ہے۔ جب ایک بات اس قدر زباں زد عام ہو جائے تو پھر بقول آتش یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

ہر جمہوری حکومت کا کام صرف اور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ جس کی ہے، جس سے ہے اور جس کے لیے ہے، ان ہی کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کرے۔  اس لیے کہ اپنا آئینی عرصہ پورا کر کے اسے ان ہی کے سامنے جانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی بھی حکومت اس میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو عوامی عدالت اس کا احتساب کرنا خوب اچھی طرح جانتی ہے۔

موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ادھر ادھر کے مسائل میں یا کسی ادارے کی ترجمانی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کے کام کرے، روزگار کے موقعوں میں اضافہ کرے، مہنگائی پر کنٹرول کرے، امن و امن کو بہتر بنائے، شرپسندوں اور ملک دشمن عناصر پر نظر رکھے اور عوام کے مسائل پر توجہ دے۔ رہے ادارے تو وہ سب اپنی ترجیحات اور اپنا تحفظ کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

امید ہے کہ پاک فوج کی جانب سے دی جانے وضاحت کے بعد سیاسی جماعتیں، حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج، وزرا، مشیران حکومت، سیاسی رہنما اور خود پاکستان کے وزیراعظم کی جانب سے اب کوئی ایسی بات نہیں دہرائی جائے گی جس سے اس بات کا اظہار ہو کہ حکومت یا اپوزیشن کا کوئی اہلکار پاک فوج کے ساتھ رابطے میں رہ کر حکومتی امور میں مداخلت کا سبب بن رہا ہے۔ سب اپنی اپنی حدود میں اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کو فوقیت دیتے رہیں گے۔ اسی میں پاکستان کے اچھے مستقبل کا راز پوشیدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).