31 جنوری کا آنا تعجب خیز نہیں


جب سے پی ڈی ایم نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ 31 جنوری تک وزیراعظم عمران خان اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں تب سے میڈیا کے بزرجمہر تجزیہ کار اور اینکر پرسن بار بار یہی سوال کر رہے ہیں کہ آیا 31 جنوری تک حزب اختلاف کے اراکین، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گے؟ یہ سوال ایسے ہی ہے جیسے کہ وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔

حزب اختلاف نے شروع سے ہی نہیں کہا کہ ان کے اراکین اپنی نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گے۔ ان کے فیصلوں میں پہلا فیصلہ یہ تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل تمام پارٹیوں کے قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود اراکین اپنا اپنا استعفیٰ اپنی اپنی پارٹیوں کے سربراہان کے پاس جمع کرا دیں جو یقیناً کرا دیے گئے ہوں گے۔ نہ بھی کرائے گئے ہوں تو اراکین سے اور نہ ہی سربراہوں سے باز پرس کے انداز میں پوچھا جانا کسی کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ ہر پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے جس کا تعلق ہر پارٹی کے سربراہ اور نمائندگان سے ہے۔

پی ڈی ایم کا دوسرا بنیادی فیصلہ یہ تھا کہ وزیراعظم 31 جنوری تک مستعفی ہو جائیں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو لانگ مارچ سے دھرنا دینے تک، اسمبلیوں، عدالتوں اور سڑکوں تک پہ اپنا مطالبہ منوانے کی خاطر جو بھی کرنا پڑا کیا جائے گا۔ بڑے شہروں میں جلسے ہو چکے ہیں، چھوٹے شہروں میں ریلیاں مسلسل ہو رہی ہیں۔ مطالبہ شد و مد سے دہرایا جا رہا ہے۔ فوج کی سیاست میں مداخلت سے یکسر اجتناب کا ذکر کھلے عام ہوتا ہے۔

ملک کے عوام واضح طور پر دو طرح کی سوچ کے حامی بن چکے ہیں ایک سٹیٹس کو برقرار رکھنے والے اور دوسرے سٹیٹس کو سے بالکل نکل جانے کی سوچ رکھنے والے۔ حزب اختلاف نے پہلی بار اس سوچ کو آگے بڑھایا ہے۔ اس سے پہلے کی جمہوریت کے حق میں تحریکیں مارشل لاء ہٹائے جانے، انتخاب کرائے جانے اور جمہوریت بحال کیے جانے سے متعلق ہوا کرتی تھیں لیکن اس بار کی تحریک مارشل لاء کا صفحہ پھاڑے جانے کے مطالبے کی امین ہے۔

مارشل لاء لگائے جانے کی خواہش ہی وہ عنصر ہے جو فوج کو سیاست میں دخیل ہونے کی جانب مائل کرتا ہے۔ آئی ایس پی آر سو بار کہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں اور فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی ضرورت نہیں لیکن ماضی کے تجربات سے لے کر آج کے شیخ رشید کے کھلے بیانات تک غماز ہیں کہ آئی ایس پی آر کی کہی یہ بات بھی سیاست ہی کی ایک کڑی ہے جو دنیا کی کسی فوج میں کی ہی نہیں جاتی۔

بہتر تھا کہ اس پر آئی ایس پی آر خاموش رہتا لیکن خاموش رہنا تو عسکری قیادت نے سیکھا ہی نہیں۔ بذات خود اصطلاح عسکری قیادت کی اصطلاح بھی قیادت کی خواہش کی نشاندہی ہے۔ ملک کی قیادت سیاستدان کیا کرتے ہیں اور فوج کے اعلیٰ عہدیدار تو درحقیقت فوج کی بھی قیادت نہیں کرتے بلکہ اس کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں چہ جائیکہ لوگوں کی قیادت کرنا، مگر چند ماہ پہلے تک فوج کے سربراہان کے حق میں شہروں میں کھلے عام بینر آویزاں دیکھے گئے ہیں۔

31 جنوری کو آنا ہے۔ اس کا آنا تعجب خیز نہیں۔ وزیراعظم کا مستعفی نہ ہونا بھی تعجب خیز نہ ہو گا البتہ تعجب خیز تب ہو گا اگر پی ڈی ایم اپنے کیے فیصلوں سے ہٹ جائے اور ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ اگر اس بار کوئی چال چلی گئی اور حزب اختلاف اس چال میں آ گئی تو یوں سمجھیے کہ ملک سے سیاست کا ٹنٹا تمام اور فسطائیت کا بازار گرم ہو جائے گا چاہے وہ فسطائیت شروع میں کتنی ہی نرم رو کیوں نہ ہو۔ لیکن ایسا کبھی ہوا نہیں کہ ملک میں آمریت قائم رہے یا فسطائیت مخالف قوتیں زور نہ پکڑیں، جلد نہ سہی بدیر سہی، جب بھی ایسا ہوگا تو کسی 31 جنوری کے یاد کرائے جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).