ہائے رے سردی


یقیناً پچھلے زمستاں کی سرد ناکی نے عام لوگوں کو چھٹی تو کیا گیارہویں تک کا دودھ یاد دلا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس برس سوشل میڈیا پر اڑنے والی سردی کی ہولناک وعیدوں نے خاص وعام کے خوب ”تراہ“ نکالے رکھے۔ صد شکر کہ دسمبر کا خاتمہ بالخیر ہوا مگر جنوری نے اپنا رنگ ضرور دکھایا۔

پچھلے سرما کی طرح ان سردیوں نے بھی روایتی شعراء کو سردی کی بابت اپنے شعری نظریات سے یوٹرن لینے پہ ضرور مجبور کیا ہو گا۔ ماضی میں آتشیں حسد و عشق میں جلے بھنے شعراء سرد اور برفاب موسم کو باعث راحت مانتے تھے۔

کبھی سرد ہوا یار کو یاد کرنے کا موجب بنتی تو کبھی سردی کی آمد پہ محبوب سے ملاقات کی بنتی کی جاتی۔ جبکہ گرمیوں کو کسی نے بھی لائق تحسین نہ جانا۔ دسمبر کے تو اتنے گن گائے گئے کہ وہ ناز سے اترانے لگا اور کچھ مدت کے لئے ٹھنڈا ہونا بھی چھوڑ دیا۔

نہ معلوم جنوری کی شان میں کیوں نہ لکھا گیا۔ غالباً نحیف و ناتواں شعراء کے دسمبر کے اندر ہی کام بن یا پھر تمام ہو جاتے ہوں گے۔ جنوری کے جاڑے میں سردی سے یوں پالا پڑا کہ خورشید کا نور ظہور بھی عید کا چاند ٹھہرا۔

اندھا دھند، دھند نے دھند میں تارے دکھا دیے۔ ٹمپریچر نے اس حد تک کم ظرفی دکھائی کہ اپنی اوقات سے بھی زیادہ گر گیا۔ یوں مزید تات مان گرنے کے خوف سے عشاق بے چارے سرد آہیں بھرنے سے بھی معذور ہیں۔ عشقیہ و معشوقیہ سرگرمیاں بھی تعطل کا شکار ہیں۔

عشق کو تپتے ہوئے صحرا سے تشبیہہ دینے والے عشاق بھی جاڑے سے دانت بجانے لگے۔ گویا کپکپاہٹ، دندناہٹ اور یخ یخاہٹ کا دور دورہ ہے۔ حدت جذبات کے دعویداروں کے ہاں جذبات کی یخ بستگی نے عاشقی و مردانگی کو ہی مشکوک بنا دیا۔

اس حال میں کتاب تنہائی کی ساتھی ہے نہ وصل ہجر کا درماں ہے بلکہ صرف رضائی مطلوب ا ور اٹیچ باتھ مقصود ہے۔ حتیٰ کہ شب یلدائی ٹھنڈ نے سبھی کو ایک دوسرے کا رضائی بہن بھائی بنا کے رکھ دیا ہے۔ یہ عقدہ بھی عیاں ہوا کہ کمبل کو چھوڑنے کے باوجود کمبل کیوں نہیں چھوڑا کرتا۔ کھانسنا، چھینکنا اور بلغم کھنگارنا تو معمول ہوا جبکہ ناک کی نم ناک روانگی اسے خطرناک بنائے ہوئے ہے۔ سنا ہے آج کل نہانا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں رہا۔

البتہ جلنے والوں کو سردی کا احساس کم ہو گا۔ انگاروں اور اشرف المشروبات (چائے ) کے سوا کوئی چارہ نہیں جبکہ انڈا اور لنڈا فروشوں کی تو چاندی ہوئی ہے۔ ان حالات میں عرش صدیقی بھی اپنے لکھے سرمائی قصیدوں پہ نادم و پشیماں ہوں گے۔ کڑاکے کی ٹھنڈ نے سیاسی انقلابوں اور قومی بجلی گھروں کو ایسے ٹھنڈ لگوائی کہ ان کے ہاں ٹھنڈ ہی پڑ گئی۔ اوپر سے کورونا کی کورونیت وبال جاں بنی ہے۔ لیکن سرکار نے چالاکی سے کورونا کو تعلیمی اداروں میں بند کر کے ملک محفوظ کر لیا۔

دیس میں شاد و فرحاں رہے تو فقط اساتذہ کرام اور شاگردان عظام رہے پر بکرے کی ماں زیادہ خیر نہ منا سکی۔ کہہ سکتے ہیں کہ جب سردی اور کورونا آتا ہے تو چھٹیاں ہوتا ہے اور جب زیادہ سردی اور زیادہ کورونا آتا ہے تو زیادہ چھٹیاں ہوتا ہے، ۔ تاہم بڑے قائد نے قبر میں سکون کی نوید دی ہے۔ کوئی انہیں بتلاؤ کہ بعد از مرگ بھی کچھ لوگوں کے لیے ’زمہریر‘ُ کا عذاب منتظر ہے۔

اب اس دل گداز اور سرد ناک زمستاں میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے ثناء خوان تقدیس سرما کہاں ہیں؟ جبکہ بہادر شاہ ظفر ہوتے تو کچھ یوں کہہ اٹھتے:

ان سردیوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں

اتنی سکت کہاں ہیں طبع ناتوان میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).