شب زفاف یا موت کا دروازہ!


پاکستان کے ایک بڑے ہسپتال میں ہم کام کر رہے تھے۔ رات ڈھل رہی تھی، سپیدہ سحر ابھی نمودار نہیں ہوا تھا کہ ڈیوٹی ڈاکٹر کی گھبرائی ہوئی آواز میں کال آئی،

” ڈاکٹر فورا آئیے، مریض بہت سیریس ہے، بہت خون بہہ چکا ہے “

“مسئلہ کیا ہے؟ “

” نئی نویلی دلہن ہے، رات میں ہی شادی ہوئی ہے۔ اندام نہانی ( vagina) سے بہت تیزی سے خون بہہ رہا ہے. شاید اندر زخم بہت بڑا ہے “

“آپ مریضہ کو فوراَ آپریشن تھیٹر منتقل کریں۔ خون کی تین چار بوتلوں کا انتظام ہونا چاہئے۔ میں پہنچ رہی ہوں”

ماضی کے دروازے سے جھانکتی ہوئی ایک یاد آج بضد ہے کہ کواڑ کھول دیئے جائیں اور رہائی کا پروانہ عطا کیا جائے۔ وطن عزیز میں شادیوں کی بہار ہے اور احباب کا محبت بھرا نیوتا ہم تک بھی پہنچ رہا ہے گو کہ شرکت سے معذور ہیں۔ اب ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے تار دل پر کیسے مضراب کی چوٹ لگتی ہے، یہ ہم نہیں جانتے۔

آندھی طوفان کی رفتارسے گاڑی دوڑاتے ہم ہسپتال پہنچے۔ انتظار گاہ میں بہت سے مرد و عورتیں پریشانی کے عالم میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کے ہماری طرف بڑھے کہ کچھ بات کی جائے مگر ہمیں آپریشن تھیٹر پہنچنے کی جلدی تھی۔ مریضہ آپریشن ٹیبل پہ لٹائی جا چکی تھی۔ مہندی لگے دونوں ہاتھوں کی نسوں میں خون کی بوتلیں لگی تھیں ۔

دبلی پتلی، اٹھارہ برس کی نو عمر دلہن، چہرے پہ پیلاہٹ اور بے کسی، آنکھوں میں پھیلے ہوئے کاجل کے ساتھ خوف، افشاں بھری بکھری ہوئی زلفیں، لبوں پہ مٹی ہوئی لالی اور درد بھری کراہیں!

ہمیں موجود پا کے انیستھیٹسٹ نے بے ہوشی کا انجشکن لگایا اور ہم نے آپریشن کا آغاز کیا۔ خون اتنی تیزی سے خارج ہو رہا تھا جیسے کوئی نلکا کھل گیا ہو۔ بچی بہت دبلی پتلی تھی سو معائنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی بہت سارے اوزاروں کی مدد سے اس جگہ تک پہنچے جہاں سے خون کا خروج تھا۔

اندام نہانی (ویجانا)کے بہت اندر کافی گہرا اور لمبا شگاف تھا جس کا اوپر کا سرا رحم تک جا پہنچا تھا ۔ یہ اناڑی پن سے قائم کئے گئے جنسی تعلق میں بے پناہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ تھا۔

یہ ایک مشکل مقام تھا کیوں کہ بہت ساری خون کی شریانیں اور پیشاب والی نالیاں یہیں سے گزرتی ہیں ۔ یہاں پہ شگاف کی سلائی بھی ایک انتہائی مشکل امر ہوا کرتا ہے کہ اتنی تہہ میں ایک چھوٹی سوئی کی مدد سے ایسے سلائی کرنا کہ کوئی بھی ٹانکہ نہ تو ڈھیلا پڑے، نہ ٹوٹے اور نہ ہی کسی اور عضو کو متاثر کرے اور خون بہانے والی شریانیں بھی قابو میں آ جائیں، بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔

ایسے مشکل مواقع ہی ڈاکٹر کے لئے چیلنج ہوا کرتے ہیں اور انہی سے نبٹنے کی تربیت وہ میزان ہے جو عطائی اور ڈاکٹر میں تمیز کرتی ہے۔ زخم کی سلائی کے بعد خون کا اخراج بند ہو گیا۔ اس دوران مریضہ کو چار بوتل خون دیا گیا۔ باہر آنے پہ رشتے داروں کا جم غفیر ہماری طرف لپکا۔ ہم نے نظر دوڑائی تو ایک طرف ایک پریشان حال نوجوان، بھاری بھرکم ڈیل ڈول کے ساتھ چہرے پہ اڑتی ہوائیاں اور خجالت کے آثار لئے بھی موجود تھا۔ ہم نے سمجھ لیا کہ یہی محترم کل دولہا میاں کے رتبے پہ فائز ہوئے ہوں گے۔

رشتہ داروں کو صورت حال سے مختصراً آگاہ کیا اور دولہا میاں کو ایک طرف لے جا کر کچھ سوال کرنا چاہے۔ معلوم یہ ہوا کہ دولہا میاں انتہائی کورے تھے پر بےتاب بھی بہت۔ سو اناڑی پن اور بے تابی و اشتیاق نے دلہن کو موت کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا تھا ۔

آج کل پاکستان میں شادیوں کی فصل عروج پہ ہے سو جی میں آئی کہ اس اہم پہلو پہ بات کی جائے۔ اس بات کو کہتے ہوئے یہ نکتہ بھی پیش نظر ہے کہ دور دراز علاقوں میں رہنے والی سینکڑوں دلہنوں کی رسائی بڑے ہسپتالوں تک بر وقت تو نہیں ہو سکتی تو کیا ایسا تو نہیں کہ بہت سی بچیوں کے لئے شب زفاف موت کا ہرکارہ بن جاتی ہو؟

ہمارے معاشرے میں ازدواجی زندگی کے آغاز کی تراکیب میں زرق برق ملبوسات زیب تن کیے دولہا دلہن، بیزار قاضی جی، پھولوں قمقموں سے سجا سجایا جگمگاتا منڈپ، ڈھول تاشوں پہ ناچتے دوست احباب، بے تحاشا کیمرے تھامے پھرکی کی طرح گھومتے فوٹوگرافر، فرائض کی فراغت کے جذبات سے سرشار والدین، لذت کام و دہن کے لئے انواع و اقسام کے مشروبات و طعام ایک ایسا لازمه ہیں جن کے بنا کوئی رشتہ ازدواج میں بندھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

المیہ یہ ہے کہ اس سب کھیل تماشے کے مرکزی کردار سوچ وفکر کی منزلوں سے کوسوں دور کھڑے ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ زندگی کا یہ کھیل جو شروع ہونے جا رہا ہے اس کے بنیادی اصول کیا ہوں گے؟ کہاں لب کشائی کرنی ہے؟ کہاں ضبط کرنا ہے؟ کہاں محبت کے پر جلنے کا اندیشہ ہے؟ کہاں جذبات کو ٹھیس پہنچنے کی فکر کرنی ہے؟ کہاں بھرم رکھنا ہے؟ کہاں ہاتھ پکڑنا ہے؟ کہاں سہارا دینا ہے؟ اور کہاں معاف کرنا ہے؟

وہ تو اس سب ہنگام کو بالی ووڈ کی ایک فلم سمجھ کر ہی شاداں و فرحاں رہتے ہیں۔ لیجیے جناب ایجاب و قبول کے بعد ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رخصتی ہو چکی۔ کچھ ہی گھنٹوں قبل ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کا ہم سفر بننے والا جوڑا، پھولوں کی لڑیوں میں شب زفاف کے لئے بے چین ہے۔ جہاں دولہا کے لاشعور میں دلہن کا باکرہ پن ثابت کرنے کی خواہش اور ولیمہ حلال کرنے کی آرزوئے بے تاب ایک طوفان بن چکی ہے۔

دولہا دلہن کو تو چھوڑیے، کھسرپھسر کرتے اہل خانہ، چٹکلے بازی کرتے دوست، معنی خیز اشارے کرتی بڑی بوڑھیاں، شرارت بھری سرگوشیاں کرتی خواتین بھی منتظر ہیں کہ صبح دم جادوگر کے ہیٹ سے کبوتر نکلے گا یا خالی ہیٹ شکوک کی زد میں آ جائے گا؟

انسانی اعضا کی نزاکت کو تو ایک طرف رکھیے، معاشرتی میزان کے تول میں پورا اترنے کی خواہش، اجنبی سرزمینوں کو فتح کرنے کی عجلت اور بنیادی اصولوں سے لاعلمی وہ اندھا سفر ہے جس کے مسافر ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے کسی ایک کو موت کی سرحد پہ پہنچا دیتے ہیں۔

جان لیجئے کہ رشتہ ازدواج کا آغاز کرنے کے لئے نکاح کے دو بول کافی نہیں۔ دو مختلف گھرانوں اور مختلف روایات کے پروردہ، اپنے اپنے تصورات، خواہشات، خیالات اور جذبات کے ساتھ چند گھنٹوں کی ہمراہی کے بعد اگر یہ خیال کریں کہ کافی ہم آہنگی ہو چکی، اختیار کا ٹکٹ بھی الاٹ ہو چکا، تب بھی تار جیسے نازک تعلق کو اس جلدبازی سے قائم کرنا صریحاً دیوانہ پن اور عاقبت نااندیشی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مصنوعی لوازمات کی فکر اور چٹکلے بازی سے زیادہ یہ غور کیا جائے کہ زندگی شروع کرنے والوں کی اس مقام تک پہنچنے سے پہلے تربیت کی جائے اور راہیں سجھائی جائیں۔ جنسی اعضا کے متعلق دماغ میں پنپنے والے بہت سے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں ان دونوں کی سائنسی معلومات سے مدد کی جائے۔ سہولت، محبت، قبولیت، جذباتی ہم آہنگی، اور جنسی تعلق کے لئے مناسب وقت کا انتظار ہی وہ ہتھیار ہیں جن کا ادراک ہر جوڑے کو ہونا چاہئے۔

جھوٹی شرم و حیا اور ازدواجی تعلقات کے مسائل سے آنکھیں چرا کے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ صدیوں سے ایسے ہی ہوتا چلا آیا ہے سو ایسا ہی مناسب ہے۔ تجربات کی سانپ سیڑھی کھیلی جائے گی اور آخر وہ دونوں کچھ نہ کچھ سیکھ ہی لیں گے۔ فرسودہ روایات کو توڑنے کا عزم ہی ہمیں مہذب دنیا کا فرد بنا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).