ایک کمینی سی خوشی کا احساس


امریکہ میں 6 جنوری کو جو ہوا وہ ساری دنیا کے لیے ایک حیران کن منظر تھا۔ اچھا تو یہاں بھی ایسا ہوتا ہے؟ یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ ایسے مناظر تو غریب ملکوں کی اسٹیج پر سجائے جاتے ہیں۔ اور مزے کی بات کہ یہ سب جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ وہی جمہوریت جو امریکہ فی سبیل للہ دنیا کو سکھانے نکلا تھا۔ یہ سب ہوتا دیکھ ایک کمینی سی خوشی ہو رہی ہے۔

امریکہ کو ڈکٹیٹر ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ انہوں نے خود پر یہ فرض خدمت خلق جان کر عائد کر رکھا ہے جہاں جہاں کوئی آمر حکومت کر رہا ہے اسے اتار نیچے پھینکنا ہے۔ اسی طرح کمیونسٹ بھی خدا کے ماننے والے امریکیوں کو سخت ناپسند ہیں۔ انہیں مٹانے کا مذہبی فریضہ بھی برسوں انجام دیتے رہے۔ ہر اس سرزمین پر پہنچے جہاں ان کے مزاج کے خلاف کچھ ہو رہا تھا۔ کہیں سیاسی مداخلت کی، کہیں فوج بھیجی اور کہیں اپنی سی آئی اے سے کام لے کر جمہوریت اور امن قائم کرنے پر کمر باندھ لی۔

چین پورا کمیونسٹ ہو گیا اور اس نے چاہا کہ ویت نام کو بھی ساتھ ملا لے۔ خدا پرست امریکہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ 1955ء میں آئزن ہاور نے ملٹری تربیت اور مشاورتی قسم کا ایک گروپ بھیجا کہ ویت نام کو جنگ کے آداب سکھائے جا سکیں۔ ان کی کوششیں جاری تھیں کہ 1965ء میں لنڈن بی جانسن نے فوجی دستے بھی اتار دیے۔ ویت نام دو گروہوں میں بٹ گیا، کمیونسٹ اور غیر کمیونسٹ۔ کمیونزم کا خوف تھا کہ امریکہ بیس برس یہ جنگ لڑتا رہا۔ ہزاروں جوانوں کے لیے جنگ لازمی ہو گئی۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں یہ خدا کے منکر ایشیا میں پھیل نہ جائیں اور پھر یورپ سے ہوتے امریکہ پہنچ جایں۔ اپنے ملک میں لڑنے سے بہتر ہے دوسرے ملک میں ان کا سر کچل دیا جائے۔

ایران کے شاہ کو تخت سے پھینکا اور در بدر کر دیا۔ سوچ تو یہی رہی ہوگی کہ اب یہاں اپنی مرضی کے بندے لائیں گے۔ امریکہ کو بڑا جاننے کر ماننے والے پیارے پیارے لوگوں کو حکومت کا اختیار دلا دیا جائے گا۔ لیکن خبر نہ تھی کہ وہاں سیاہ عمامے والے راسخ العقیدہ اور سخت گیر مذہبی رہنما آ جائیں گے جو اپنے لوگوں سے جو چاہیں سلوک کریں لیکن امریکہ کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ یہ لوہے کے چنے اب نہ نگلتے بن رہے ہیں نہ اگلتے۔ زور چلا تو پابندیاں لگا دیں جن سے حتمی تجزیے میں عوام ہی متاثر ہوتے ہیں، ایک غیر جواب دہ حکومت کے دسترخوان کو ایسی پابندیوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔

عراق نے جانے کیا سوچ کر ایران پر حملہ کر دیا۔ شاید اس غلط فہمی میں کہ ابھی ابھی نیا نیا انقلاب آیا ہے۔ انقلابیوں نے فوج کے وزیر مشیر، سیاستدان اور بڑے بڑے فوجی جنرل مار ڈالے۔ اب کون بچا ہے جو ملک کی حفاظت کرے گا۔ کچھ خطرہ یہ بھی تھا کہ یہ شیعہ ازم کہیں پھیل کر عراق یا آس پاس کے دوسرے ملکوں تک نہ جا پہنچے۔ امریکہ کی براہ راست دلچسپی اس جنگ سے یہ تھی کہ تیل اور توانائی کے ذخائر پر نہ تو ایران کا پورا قبضہ ہو اور نہ عراق کا۔ جب اس بے مقصد جنگ میں ایران کا پلا بھاری نظر آنے لگا تو امریکہ نے عراق کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ جنگ میں مزید آٹھ سال جھونک دیے اور پانچ لاکھ جوان مارے گئے۔ دونوں طرف سے جو دربدر ہوئے وہ الگ۔ دنیا کو کونٹرا گیٹ اسکینڈل کے بارے میں بہت بعد میں معلوم ہوا کہ امریکا نامی بی بھٹیارن عقبی دروازے سے ایران کو بھی اسلحہ بیچ رہی تھیں۔ اور اس کا نیک مقصد یہ تھا کہ ایران کو اسلحے کی فروخت سے ہونے والی یافت سے نکاراگوا میں اپنے حامیوں کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ چت بھی میری ہے، پٹ بھی میری ہے۔

ایران اور عراق جنگ سے نڈھال تھے۔ جانی اور مالی نقصان شدید تھا لیکن تیل کی دھاریں اب بھی بہہ رہی تھیں۔ اور امریکہ کی خواہش تھی کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہ دھوئے بلکہ اس کا رخ بھی اپنی طرف موڑ دے۔ اور پھر پھر نائن الیون ہو گیا۔ اور ایسا ہوا کہ ہوتا ہی جا رہا ہے۔ یہ دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ تھا جو امریکہ کی سرزمین پر ہوا۔ ہائی جیکرز تو عرب تھے۔ لیکن غصہ اترا افغانستان پر کیونکہ اسامہ بن لادن وہیں پناہ لیے ہوئے تھا۔

پھر امریکہ نے اپنے جگری یار برطانیہ کی بنائی ایک رپورٹ اور اس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر کے کہنے پر عراق پر حملہ کر دیا۔ سب کہتے رہے کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراق کے پاس ویپن آف ماس ڈسٹرکشن نہیں ہے۔ اس نے اپنا پروگرام معطل کر رکھا ہے لیکن بش کا بہت دل چاہتا تھا کہ وہ عراق مین جمہوریت لے آئیں۔ اس شوق کی تکمیل مین ایک چھوٹی موٹی جنگ ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
صدام حسین انسپکشن ٹیم کے ساتھ پورا تعاون کر رہے تھے۔ کہہ رہے تھے ان کا ملک ایسا کچھ نہیں کر رہا۔ لیکن ٹونی بلیئر اڑے رہے کہ ایسا ہی ہے۔ کولن پاؤل نے سیکورٹی کونسل میں جھوٹ بولا اور ایک غلط رپورٹ کو بنیاد بنا کر 2003 میں عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ ٹونی بلیئر کے ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ دانستہ جھوٹ بولتے رہے اور اس خونی جنگ کا باعث بنے اس وجہ سے انہیں جنگی مجرم قرار دیا جانا چاہیے۔ ٹونی بلیئر نے 2007 میں اپنا مذہب پروٹسنٹ سے بدل کر کیتھولک کر لیا۔ اور شاید پوپ یا پادری کے سامنے اعتراف کر کے گناہوں کی معافی مانگ لی۔ لیکن دنیا اور اس میں بسنے والے لوگ انہیں معاف نہیں کریں گے۔ صدام کا محل لوٹا گیا۔ مجسمے گرائے گئے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہوا۔ ملک میں گروہ بندیاں ہوئیں اور یکجہتی کا نام و نشاں باقی نہ رہا۔ تیل کے دھاروں کے رخ بھی جانے کہاں موڑ دیا گیا۔

امریکہ کو اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ اقوام متحدہ کی اجازت اور قرارداد کی پرواہ کیے بغیر عراق پر چڑھ دوڑا۔ اس کا ساتھ برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ نے دیا۔ دنیا کی اور یو این او کی نظر میں یہ جنگ غیر قانونی اور بلا جواز تھی۔ لیکن کون پوچھتا ہے جب امریکہ ساتھ دے رہا ہو۔ سیاں بھئے کوتوال۔ مقصد اس جنگ کا یہی تھا کہ صدام کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کیا جائے اور وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو ڈھونڈ کر تباہ کیا جائے۔ پہلا مقصد تو حل ہو گیا لیکن وہ خطرناک ہتھیار جس کی دہشت بنائی گئی تھی کہیں نہ ملے۔
امریکی صدر بش جونیئر اتنے پاپولر ہوئے کہ دوسری بار بھی منتخب ہو گئے۔ یہ ریپبلیکن پارٹی کے صدر تھے جن کے بارے میں ہماری خوش فہمی ہے کہ یہ جنگ نہیں کرتے۔

لیکن امریکہ کا دل ابھی بھرا نہیں تھا۔ کچھ اور کرنے کو دل چاہتا تھا۔ رخ کیا لیبیا کی طرف۔ وہاں خانہ جنگی تھی۔ کیوں تھی، کس کی شہ پر ہو رہی تھی یہ کوئی چھپی بات تو نہیں۔ 2011ء میں لیبیا میں بھی فوج بھیج دی گئی۔ امریکہ کے صدر اس وقت ہمارے آپ کے محبوب باراک اوباما تھے۔ جی وہی جنہیں امن کا نوبل انعام بھی ملا تھا۔ قذافی کا جو حال ہوا، وہ سب نے دیکھا۔ جو کبھی ایک خوش حال ملک تھا اب اسمگلروں اور بحری قزاقوں کا نشیمن بن گیا۔ وہاں کے لوگ پناہ اور سلامتی کی تلاش میں جانوں پر کھیل کر ہجرت کر رہے ہیں۔
پھر باری آئی شام کی۔ وہاں کچھ پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے اور کیوں؟ اتنا ضرور علم ہے کہ وہاں بھی امریکہ موجود ہے۔ امریکہ، فرانس، روس، ترکی، برطانیہ اور دوسرے ملکوں نے باغیوں کو مختلف قسم کی مدد فراہم کی۔ ایک طرف مذہبی جنگ ہو رہی ہے، جس میں سنی اکثریت شیعہ اقلیت سے نبردآزما ہے۔ دوسری طرف ملک کی اندرونی بدامنی سے دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ شام میں رہنے والے کرد اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔ کسی کو ابھی تک سوائے بربادی کے کچھ نہیں ملا۔ شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب باغیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یعنی اپنے پرائے سب ہی لڑ مر رہے ہیں۔

اور پھر اچانک ٹرمپ صاحب نمودار ہو گئے۔ کسی کو الیکشن میں ان کے جیتنے کی امید نہیں تھی۔ لیکن یہ جیت گئے۔ اور آتے ہی اپنے عجیب و غریب بیانات اور پالیسیوں سے متنازع بن گئے لیکن اسے بھی انہوں نے اپنی مقبولیت جانا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے کف در دہان حامیوں کی جتھہ بندی کر لی۔ وہ امریکی جو کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں لیتے تھے، شاید ووٹ بھی نہیں ڈالتے تھے اب ٹرمپ ٹرمپ پکارتے ان کے ساتھ ہو لیے۔

یہ کون لوگ ہیں؟

1۔ نظر انداز طبقہ سب سے پہلے وہ گروہ ہے جنہیں عام طور پر نا خواندہ اور کمتر سمجھا جاتا رہا۔ انہیں بڑے عہدے بھی نہیں ملتے۔ مغربی ورجینیا اور مڈ ویسٹ کے علاقے میں کوئلے کی کانوں اور دوسری انڈسٹری میں کام سے محروم ہوئے۔ ٹرمپ نے انڈسٹری کو پھر سے بحال کرنے اور لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا۔ ان کے لیے امید کی کرن تھی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ جب ان کا صدر کھل کر دوسرے ملکوں مثلاً کینیڈا اور چین سے تجارت کے معاملے پر بات کرتا ہے اور امریکی مفاد کو ترجیح دیتا ہے تو یہ بات ان کے دلوں کو لگتی ہے۔

2۔ ایونجلیکل کرسچن۔

یہ ٹرمپ کے غالی حامی ہیں۔ عقیدے میں پختہ ہیں۔ ان کا ماننا ہے امریکہ میں آنے والے غیر ملکی ان کی ریاست پر حملہ آور ہیں۔ دعاؤں اور عبادت میں یقین رکھتے ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا کا وائرس چین نے امریکہ کو ہلاک کرنے کے لیے بنایا ہے۔ وہ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں ان کے نام کا مطلب بھی ہے اچھی خبر اور وہ صدر ٹرمپ کو اپنے لیے ایک خوش خبری سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے ٹرمپ کی اتنی برق رفتاری سے مقبولیت اور کامیابی ایک معجزہ ہے اور وہ امریکہ کا نجات دہندہ ہے۔ انہیں اس بات کا شدید گلہ ہے کہ ان کے ساتھ بہت امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے اور مذاق کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ لیکن اب حد ہو چکی ہے۔ یہ ہم جنسیت اور عورت کے ابارشن بھی گناہ سمجھتے ہیں۔

3۔ سفید فام احساس برتری کے مارے ہوئے۔

یہ بہت ہی خطرناک طبقہ ہے۔ یہ قدامت پرست سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ٹرمپ کے ساتھیوں میں یہ گروہ بھی شامل ہے جو کوئی نیا نہیں ہے۔ جب امریکہ میں خانہ جنگی ہو رہی تھی اور سیاہ فاموں کو انسانی حقوق دینے کی آواز اٹھائی جا رہی تھی تب یہ گروپ وجود میں آیا۔ ان کا بڑا نشانہ سیاہ فام تھے، جنہیں وہ غلاموں کے سوا کوئی درجہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد ان کی لسٹ میں یہودی، کمیونسٹ، مسلم، ہم جنس پرست، اور اب کیتھولک شامل ہو چکے ہیں۔ یہ خود کو بالاتر نسل جانتے ہیں اور دنیا پہ حکمرانی کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک گروپ ہے پراؤڈ بوائز اور اس گروہ کو ٹرمپ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
اب ایک بات متضاد ضرور ہے کہ ٹرمپ یہودیوں کا مخالف نہیں۔ اس کی تو باقاعدہ رشتے داری ہے یہودیوں سے۔ عربوں سے بھی جانی دوستی ہے۔ لیکن کچھ پانے کے لیے کچھ کھونے کی سیاست چلتی ہے۔ سفید فام نسل پرست اس ایک نکتے سے متفق نہ بھی ہوں، پھر بھی ان میں اور ٹرمپ میں بھائی چارہ ضرور ہے۔

4 میڈیا

امریکی عوام سوپ ڈراموں اور فلموں کے شوقین رہے ہیں۔ صبح سے شام تک ہزاروں چینلز ہر طرح کی فلمیں نئی پرانی، رومینٹک، کاؤ بوائز، ایکشن، جاسوسی اور مزاحیہ۔ لیکن اب کچھ عرصے سے امریکی بھی خبروں کے دلدادہ ہو گئے۔ خبروں کے بلٹین اور ٹاک شوز ان کے خیال میں بہترین تفریح ہیں۔ یہاں دو بڑے میڈیا ہاؤسز ہیں، سی این این اور فاکس نیوز۔ جس طرح امریکہ دو بڑے گروپ میں تقسیم ہو گیا، اسی طرح دو میڈیا گھرانے بھی دو انتہاؤں پر چل رہے ہیں۔

پھر چھے جنوری آ گیا۔ اس دن دنیا نے وہ دیکھا جو کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ امریکہ میں یہ سب ہوگا۔ ایسے مناظر تو وہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے آئے ہیں۔ سرکاری عمارت پر حملہ تو جاہل عوام کرتے ہیں۔ اپنی املاک کو نقصان پہنچانا تو انتہا درجے کی حماقت ہے۔ کیا امریکی غیر ترقی یافتہ، جاہل اور احمق ہیں؟ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس بپھرے ہوئے ہجوم میں پولیس کے سابق اور حاضر سروس افسران، ایر فورس اور نیوی کے اہلکار اور سابق فوجی شامل ہیں۔ وہ فوجی جو عراق اور افغانستان میں تعینات رہے۔ کیپیٹل ہل پر دھاوے کی ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ یہ گروہ منظم بھی تھا اور اپنے کام سے واقف بھی۔ ان میں کچھ فوجی یونیفارم میں ملبوس تھے۔ کچھ اسلحے سے لیس تھے۔ کچھ نازی پارٹی کے جھنڈے لیے ہوئے تھے۔ کچھ کی ٹی شرٹس پر نازیوں کے نعرے تھے۔ ہو سکتا ہے کچھ اور بڑے اور طاقتور لوگ بھی ان کے پیچھے ہوں۔ یہ سابق فوجی اپنے کام کے ماہر ہیں۔ انہیں جنگ کرنا اور لوگوں کو مارنا برا کام نہیں لگتا۔ ان کی تربیت انہی اصولوں پر ہوتی ہے کہ ہمیں لڑنا مارنا ہے۔ یہ ہمارے اور ہمارے ملک کے دشمن ہیں۔ تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب ان لوگوں کو ان اپنے ملکوں میں جا کر مارنا ٹھیک ہے تو یہاں بھی جائز ہے۔

جب ٹرمپ ابو غریب کے تشدد پسندوں اور بلیک واٹر کے دہشت گردوں کو معافی دیتا ہے تو اس بپھرے ہجوم کے حوصلے اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔

اب جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری ہے۔ سیکیورٹی سخت ہے۔ شام، عراق اور افغانستان میں جتنے امریکی فوجی ہیں انہیں ملا کر اور اس سے بھی زیادہ حفاظت کے لیے بلائے گئے ہیں۔ سنا ہے ٹرمپ کے حامی اپنی طرف سے ایک تقریب حلف برداری ٹرمپ کے لیے منعقد کر رہے ہیں جو ان کی نظر میں ان کا جائز منتخب صدر ہے۔ پتہ نہیں ٹرمپ صاحب اس تقریب میں جائیں گے یا نہیں۔ جو بائیڈن کی حلف برداری میں تو وہ کہہ چکے ہیں کہ نہیں جائیں گے۔
کہنا یہ تھا کہ یہ سب دیکھ کر ایک کمینی سی خوشی ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).