ایران اور امریکہ کے تعلقات: شاہ محمد رضا پہلوی کی جلا وطنی سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب تک


امریکہ ایران
(16 جنوری 1979 کو ایران کے حاکم شاہ محمد رضا پہلوی کو ایرانی انقلاب کے نتیجے میں جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا۔ اسی مناسبت سے ہم یہ ایران اور امریکہ کے تعلقات کا جائزہ لینے والی یہ تحریر شائع کر رہے ہیں۔)

یہ اکتوبر 1979 کی بات ہے۔ شاہ محمد رضا پہلوی کو ایران سے فرار ہوئے آٹھ ماہ بیت چکے تھے اور آیت اللہ روح اللہ خمینی فرانس میں جلاوطنی سے واپس ایران آ کر یکم اپریل کو رہبرِ اعلیٰ کے عہدے پر فائض ہو چکے تھے۔

ایسے میں سی آئی اے کے ایک سینیئر افسر جارج کیو امریکہ سے تہران پہنچے اور ایران کے عبوری ڈپٹی وزیرِ اعظم عباس امیر انتظام اور وزیرِ خارجہ ابراہیم یزدی سے ملاقاتیں کیں۔

انھوں نے دونوں رہنماؤں کو خبردار کیا کہ مصدقہ خفیہ معلومات اور انٹیلیجنس ایجنسیز کو ملنے والے شوہد کے مطابق ہمسایہ ملک عراق کے صدر صدام حسین خاموشی مگر منظم انداز سے ایران پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اب تک امریکہ کی انقلاب کو ناکام بنانے اور شاہ کو واپس اقتدار میں لانے کی تمام تر امیدیں ماند پڑ چکی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

انقلابِ ایران کی وہ شخصیات جو امام خمینی کے ہمراہ تھیں

ایرانی افواج کتنی طاقتور ہیں؟

جب آیت اللہ خمینی ایران واپس آئے۔۔۔

ایران: انقلاب کے بعد اور اب

تاہم انھیں اس بات کی امید ضرور تھی کہ وہ تہران میں نئی قیادت کے ساتھ تعلقات استوار کر پائیں گے، ابھرتی ہوئی اسٹیبلشمنٹ میں سے اعتدال پسند عناصر کی حوصلہ افزائی کر سکیں گے اور ایران کو سرحد پار موجود سوویت یونین سے متعلق جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے جو اس وقت امریکہ کے ایجنڈا پر سرِ فہرست تھا۔

تاہم ان میں سے کچھ بھی ممکن نہیں ہونے والا تھا۔

رضا شاہ پہلوی

ایران کے لیے امریکہ 'ایک عظیم شیطان'

اکتوبر میں کیو کی دوسری ملاقات کے دو روز بعد اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیشِ نظر کیسنر کے مرض میں مبتلا شاہ کو نیو یارک سے علاج کرنے کی اجازت دے دی۔

ان کا یہ فیصلہ ایرانیوں کو ہرگز نہ بھایا اور انھوں نے تہران میں مظاہرے شروع کر دیے جن کا اختتام ایران میں امریکی سفارت خانے پر چار نومبر کو ہونے والے حملے اور 61 سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو یرغمال بنانے پر ہوا۔

ان غیر معمولی واقعات کے باعث 444 روز تک یرغمال بنائے گئے افراد کے گرد ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہو گئی جس نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں ایسا تناؤ پیدا کیا جو آج تک باقی ہے۔

ایران کے انقلابی اس وقت بھی اور آج بھی امریکہ کو’ایک عظیم شیطان’ قرار دیتے ہیں۔

جس شاہ کو واشننگٹن کی جانب سے اب نظرانداز کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، انھیں 1953 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور برطانیہ کی مدد سے کی جانے والی بغاوت کے نتیجے میں منتخب وزیرِ اعظم محمد مصدق کی حکومت کی جگہ لایا گیا تھا۔ مصدق اتنے بے باک تھے کہ انھوں نے ایران کی تیل کی صنعت کو سرکاری تحویل میں دے دیا تھا۔

رضا شاہ پہلوی کے دورِ اقتدار کے دوران ہمیں دکھاوا اور طاقت کے بے جا استعمال کی انگنت مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی توجہ ملک میں مغربی ثقافت کو رائج کرنے سے لے کر اپنی خفیہ پولیس ‘ساوک’ کے ذریعے خوف برقرار رکھنے اور امریکہ کی نظروں کا تارا بنے رہنے تک تھی۔ تاہم اس سب کے درمیان ان کا تعلق عام عوام سے منقطع ہو چکا تھا۔

ایرانی انقلاب سے صرف ایک برس قبل صدر کارٹر نئے سال کی تقریبات کے موقع پر رضا شاہ پہلوی کے پہلو میں کھڑے یہ کہہ رہے تھے: ‘شاہ کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کے باعث ایران ‘استحکام کا جزیرہ’ بن چکا ہے۔’

سفارت خانے کا محاصرہ اور سفارت کاروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ نہ صرف ایران امریکہ تعلقات میں بلکہ ایرانی انقلاب میں ایک غیر معمولی اور تاریخی لمحہ تھا۔ ایرانی انقلاب کی مختلف اشکال تھیں اور اس کی ایک مثال اس دوران مہدی بازرگان کی قیادت میں قائم ہونے والی متنوع عبوری حکومت تھی۔

امریکی سفارت خانے پر حملہ 1979

آیت اللہ خمینی نے اس وقت ان عسکریت پسند طلبا کی حمایت کی تھی جنھوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر رکھا تھا اور مبینہ طور پر ان طلبا میں سے ایک محمد احمدی نژاد بھی تھے جو سنہ 2005 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ بازرگان حکومت کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ملک میں اسلام پسند بیانیے کو خاصی تقویت مل چکی تھی۔

انقلاب کی برآمد

اگلے ہی برس امریکہ کی جانب سے دی گئی وارننگ کے عین مطابق صدام حسین کی قیادت میں عراق نے مشرقی ایران پر حملہ کر دیا۔

اس حملے کے نتیجے میں 20ویں صدی کی طویل ترین جنگ کا آغاز ہوا جو بالآخر آیت اللہ خمینی کے الفاظ میں ‘زہر کا گھونٹ پینے’ یعنی ایک امن معاہدے کو قبول کرنے کے بعد ختم ہوئی۔

اسلام پسند گروہ

اس جنگ نے اسلام پسند گروہوں کو مقامی طور کسی بھی قسم کے مزاحمتی تحریکوں کو دبانے کا موقع دیا جیسے قدامت پسند افراد کی جماعتیں یا مجاہدین خلق۔ جیسے جیسے جنگ طویل ہوتی گئی ایران کے اسلام پسند گروہوں نے اس انقلاب کو برآمد کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔

مثال کے طور پر لبنان میں 1982 کی اسرائیلی حملے کے بعد وہ اپنے شامی حمایتیوں کے ساتھ مل کر حزب اللہ نامی شیعہ تحریک قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

امریکہ اس گروہ کو 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے اور امریکی فوجی دستوں کی بیرکس پر دھماکے کرنے اور 1980 کی دہائی کے آخر میں لبنان میں امریکی شہریوں کو یرغمال بنانے کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا ہے۔

تہران کو عراق کی جانب سے ممکنہ حملہ کی اطلاع دے اس کی حمایت حاصل کرنے کے ناکام منصوبے کے بعد امریکہ نے عراق کی طرف داری شروع کر دی اور ایرانی فوج کی نقل و حرکت سے متعلق عراق کو معلومات پہنچانی شروع کر دیں۔ اس سب کا مقصد ایرانی انقلاب ک محدود کرنا تھا۔

تاہم دیگر عوامی معاملات میں دونوں اطراف سے کمال عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔

نومبر 1986 میں ایک غیرمعروف لبنانی جریدے الشراع نے پیچیدہ لیکن غیر معمولی کہانی چھاپی جس کے مطابق امریکی حکام تہران پہنچے اور لبنان میں یرغمال بناے جانے والے امریکیوں کی رہائی کے بدلے اسلحہ لائے۔ یاد رہے کہ یہ وہ دور جب ایران پر تجارتی پابندیوں خاصی سخت تھیں۔

ایران کو اسلحہ بیچنے کا معاملہ

یہ کہانی بعد میں سچ ثابت ہوئی۔ امریکہ دراصل اسرائیل کے ذریعے ایران کو اسلحہ بیچ رہا تھا تاکہ یرغمال بنائے جانے والے امریکیوں کی آزادی یقینی بنائی جا سکے۔

اس کے لین دین سے ملنے والی رقم کو خفیہ طور پر وسطی امریکہ کے ملک نکاراگوا کے کونٹرا باغیوں کی امداد میں لگائی گئی تھی۔

سرکاری سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار رہے اور ان کی وجہ مختلف واقعات تھے جن میں امریکی بحری جہاز کی جانب سے ایک ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانا شامل ہے جس کے نتیجے میں 290 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

جوہری پروگرام سے منسلک مذاکرات

اعتدال پسند رہنما محمد خاتمی کی 1997 میں بھاری اکثریت کے ساتھ الیکشن میں فتح اور ان کی جانب سے ‘تہذیبوں کے درمیان مذاکرات’ کی بیان نے یہ امید پیدا کر دی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بالآخر بہتر ہونے کو ہیں۔ اور یہ سب ڈیموکریٹ جماعت سے تعلق رکھنے والے بل کلنٹن کی صدارت کے دوران ہو رہا تھا۔

تاہم صدر خاتمی کو ہر قدم پر سخت گیر نظریات کے حامل عناصر نے دبانے کی کوشش کی اور یہ لمحہ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔

ادھر امریکہ میں سنہ 2001 میں جارج ڈبلیو بش کی وائٹ ہاؤس میں آمد کے بعد ملک میں سخت گیر نظریات رکھنے والوں کا بیانیہ حاوی ہو گیا۔

11/9 کے بعد ایران نے اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں موجود امریکہ اور اس کے مشترکہ دشمن طالبان کا مقابلہ کرنے میں مدد کی۔

خاتمی کی ان خدمات کا صلہ ایران کو الٹا صدر بش کی جانب سے جنوری 2002 میں ‘ایکسز آف ایول’ ممالک میں شامل کر کے دیا گیا۔ یہ وہ ممالک تھے جو امریکہ کے مطابق دہشتگردوں کی مالی معاونت کیا کرتے تھے۔

اسی سال کے آخر میں ایران کا خفیہ جوہری پروگرام اچانک سے منظر عام پر آ گیا اور یہ راز ’مجاہدین خلق‘ کے جلاوطن ہونے والے اراکین نے افشا کیا۔

فرانس اور برطانیہ کے وزرا خارجہ حسن روحانی کے ساتھ

اس سے یورپ کو ایک موقع ملا کہ وہ ایران کے ساتھ 'تعمیری مذاکرات' کر سکیں۔ برطانیہ فرانس اور جرمنی کے وزرا خارجہ بارہا تہران کا دورہ کرتے رہے اور ایران سے یورینیم کی افزودگی روکنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ تاہم اس دوران امریکہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں بنا۔

ایران نے سنہ 2004 کے اواخر میں اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ یورینیئم کی افزودگی روک دیں گے تاہم اس دوران بھی سخت گیر نظریات رکھنے والے افراد نے مداخلت کی۔

سنہ 2005 میں محمد احمد نژاد ایران کے نئے صدر منتخب ہوئے اور اگلے ہی برس ایران کی ایک مرتبہ پھر یورینیئم کی افزودگی کا آغاز کر دیا۔

اس وقت جو شخص ایران کے جوہری پروگرام کی سربراہی کر رہا تھا اور شورای عالی امنیت ملی کے چیف تھے نے اس ضمن میں اس سے قبل ہونے والی پیش رفت سے دو سبق سیکھے۔

پہلا تو یہ کہ اگر ایران کو اس پروگرام کو کامیاب بنانا ہے تو اسے امریکہ کے ساتھ بھی بات کرنا ہو گی، صرف یورپ کے ساتھ ہی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ تہران میں موجود سخت گیر نظریات رکھنے والے عناصر کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ وہ کوئی بھی معاہدہ ختم کر سکتے ہیں۔

روحانی کو مزید آٹھ برس اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا تاکہ وہ ان منصوبوں پر عمل کر سکیں۔ سنہ 2013 میں جب وہ صدر منتخب ہوئے تو ملک میں ویسی ہی خوشی منائی گئی جیسے 1997 میں خاتمی کی آمد پر منائی گئی تھی اس کی وجہ ان کی جانب سے یہ اعلان تھا کہ وہ ایران کے جوہری بحران کے حوالے سے مغرب سے بات چیت کرنے کے لیے راضی ہیں۔

احمدی نژاد اور ان کی پالیسیوں نے ملک کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا تھا۔

حسن روحانی

ان کی جانب سے کیے جانے والے مقبول عوامیت پسند فیصلوں نے سرکاری خزانہ خالی کر دیا تھا۔ ان کی جانب سے جوہری پروگرام کی بحالی نے بین الاقوامی پابندیوں کو دعوت دی تھی جس سے معاشی بحران مزید بڑھ گیا تھا۔ اس سب کے بعد، تیل کی عالمی قیمتوں میں گراوٹ کے باعث ایران کو تیل کی مد میں آنے والی آمدنی میں بھی کمی واقع ہو گئی تھی۔

انھی معاشی بدحالیوں کے باعث ایران کے حامی ملک شام کے ساتھ ساتھ دیگر عرب ممالک میں ہونے والی بغاوت نے ملک میں ایسی ہی مقبول تحریک کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔

ایران میں سنہ 2009 میں احمدی نژاد کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سامنے آنے والے ‘سبز انقلاب’ کو تو دبا لیا گیا تھا، لیکن اس مرتبہ کسی ایسی تحریک کو سلب کرنا مشکل نظر آتا تھا۔

اب فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا تھا اور روحانی وہ شخص تھے جو ایسا کر سکتے تھے۔ وہ تمام عناصر ان کے حق میں تھے جو انھیں فیصلے کرنے میں مدد دے سکتے تھے۔

رضا شاہ پہلوی

تاریخی معاہدہ

یہاں یہ واضح رہے کہ یہ صرف انھی کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ نظام کی ضرورت بھی تھی اور اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات روحانی کے صدر منتخب ہونے سے ایک برس قبل ہی عمان میں شروع ہو چکے تھے۔

مشرقِ وسطیٰ میں سیاست کا فن ضروری نہیں ہے کہ صرف ممکنات پر ہی منحصر ہو بلکہ یہ انحصار وقت کی ضرورت پر بھی ہوتا ہے۔

جواد ظریف

دو سال کے پچیدہ مذاکرات کے بعد روحانی اور ان کے باصلاحیت وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے انتہائی کلیدی کردار ادا کیا۔

اس سب کے علاوہ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای بھی ان مراحل کا حصہ ہیں اور انھیں ایران کی جانب سے دی جانے والی متعدد رعایتوں کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔

اس کے باعث تہران کی حد تک اس معاہدے کو سیاسی طور انتہائی مضبوط بنانے میں مدد ملی۔ اس معاہدے کو آزاد خیالات کے مالک اور اصلاح پسند افراد کی جانب سے خوب سراہا گیا جبکہ سخت گیر نظریات رکھنے والوں نے اس پر معمولی ردِ عمل دیا۔

ہر کوئی یہ مانتا ہے کہ یہ خاصا ‘تاریخی’ معاہدہ، لیکن ہر کسی کے لیے تاریخی کی تعریف مختلف ہے۔

جھنڈے

روحانی کا خود بھی یہی کہنا تھا کہ یہ ایک ’تاریخی معاہدہ ہے اور ایرانی اس پر مدتوں فخر کریں گے۔‘

ایران کے حامی ملک شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ یہ ’یہ ایران، اس خطے اور دنیا کے لیے ایک تاریخی اہمیت کا حامل موقع ہے۔‘ ادھر بنیامین نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک تاریخی غلطی ہے۔‘

تاہم شاید ان تمام افراد کے لیے اگلے ہی برس امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب اتنے اہم نہیں تھے، یا شاید کسی کو بھی اس انتخابی نتیجے کی توقع نہیں تھی جو بالآخر سامنے آیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران

سنہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب جہاں امریکہ میں موجود سیاسی ماہرین کے لیے ایک دھچکا تھے وہیں یہ عالمی رہنماؤں کے لیے بھی حیرانی اور خدشے کا باعث تھے۔

اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی ان خدشات کو درست ثابت کیا اور امریکہ کے عالمی تعلقات میں یکسر تبدیلی لے آئے۔ اس انتخابی نتیجے سے شاید جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ایران کیونکہ ٹرمپ اپنے صدارتی دور کے آغاز میں جوہری معاہدے سے دستربرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر کڑی معاشی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

ایسے میں ایران جہاں پہلے حسن روحانی کی آمد سے پہلے بھی معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اب ایک مرتبہ پھر سے ان کا سامنا کرنے لگا۔

آیت اللہ علی خامنہ ای

ٹرمپ کا اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب جھکاؤ بھی گذشتہ صدور سے زیادہ تھا جس کے باعث ایران نے اپنے آپ کو خطے میں تنہا محسوس کرنا شروع کردیا اور ایسے ایک مرتبہ پھر سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا۔

ادھر گذشتہ برس کے آغاز میں ہی امریکہ نے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا۔

اس کے بعد سے ایران خطے امریکہ کے مختلف فوجی اڈوں پر حملوں کا دعویٰ کرتا رہا۔ حالیہ عالمی وبا کے دوران ایران کورونا وائرس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں ہے اور یہاں اب بھی کڑی پابندیاں عائد ہیں۔

اس وقت تمام نگاہیں امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن پر ہیں جن سے جوہری معاہدے کا دوبارہ حصہ بننے کی توقع کی جا رہی ہے۔ یعنی ایران امریکہ تعلقات میں ایک نیا باب رقم ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp