کبوتر کی 13 ہزار کلو میٹر کی اڑان؟
ویب ڈیسک ۔۔۔ آسٹریلیا کے حکام نے اس کبوتر کی جان بخشی کر دی ہے، جسے اس لیے مارنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ طویل پرواز کرنے کے بعد امریکہ سے آسٹریلیا پہنچا تھا اور حکام کو یہ خدشہ تھا کہ ممکنہ طور پر اس کبوتر کے ذریعے دوسرے براعظم سے آنے والی بیماریاں اور وائرس مقامی پرندوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
کبوتر کے پاؤں میں ایک چھلا تھا، جس پر کبوتر اور اس کے مالک کا نام اور پتا لکھا ہوا تھا۔ عموماً ریسنگ میں استعمال کیے جانے والے کبوتروں کے ایک پاؤں میں اس قسم کا چھلا ڈال دیا جاتا ہے۔
چھلے سے معلوم ہوا کہ کبوتر کا نام جو ہے اور وہ امریکی ریاست الاباما میں ایک ریسنگ کبوتر کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ وہاں سے آسٹریلیا کے شہر میلبورن کا فاصلہ 13 ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ اس پورے راستے میں سمندر حائل ہے۔
خبروں کے مطابق یہ کبوتر، 29 اکتوبر کو امریکی ریاست اوریگن میں ایک ریس کے دوران غائب ہو گیا تھا اور کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا۔ پھر اچانک اسے 26 دسمبر کو میلبورن میں کیوِن چیلی برڈ کے صحن میں دیکھا گیا۔ وہ اس وقت نڈھال اور کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ کیون نے اسے بسکٹ کے کچھ ٹکڑے ڈالے تو اس نے خوراک کے لیے اسی گھر میں آنا شروع کر دیا۔
ماہرین اس بات پر حیران تھے کہ آیا اس کبوتر نے راستہ بھٹکنے کے بعد ہزاروں کلو میٹر کا یہ سفر کہیں رکے بغیر مسلسل پرواز کرتے ہوئے کیسے طے گیا ہو گا۔ تاہم اس طرح کے واقعات موجود ہیں کہ راستہ بھٹک کر سمندر پر پرواز کرنے والے کبوتر کسی بحری جہاز کی چھت پر بیٹھ کر دوسرے ملکوں میں جا پہنچے۔
کبوتر کو پکڑے جانے کے بعد اس کے چھلے پر درج نام اور پتے پر آسٹریلیوی حکام نے رابطہ کیا تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ مذکورہ کبوتر ایک غیر ملکی پرندہ ہے اور پھر اسے مار دیا جائے۔
میڈیا پر خبریں آنے کے بعد ٹوئٹر پر کبوتر کی جان بخشی کے لیے ٹرینڈ شروع ہو گیا جس میں حکام کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ کبوتر کو مارنے کی بجائے اس کے مالک کے پاس امریکہ بھیج دیں۔
آسٹریلیوی حکام نے چھلے پر درج پتے پر رابطہ کیا تو پتا چلا کہ الاباما میں اس نام کا کوئی کبوتر رجسٹرڈ نہیں ہے۔ اور چھلے کے ٹیگ پر درج معلومات جھوٹی ہیں۔ جس کے بعد حکام نے اسے مقامی نسل کا کبوتر قرار دے کر اس کی جان بخشی کر دی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).