بس تھوڑا سا وقت


تقسیم ہند سے جہاں مسلمانان برصغیر کے لیے علیحدہ وطن معرض وجود میں آیا وہیں اس تقسیم کے دوران قربانیوں کی بے مثال اور لازوال داستانیں بھی رقم ہوئیں۔

نئی مملکت کے وجود میں آنے کی خبر سنتے ہی مرد و زن، پیر و جوان اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے آزاد وطن کے خوبصورت خواب اپنی آنکھوں میں بسائے آگ اور خون کے دریا عبور کرتے ہوئے مملکت خداداد کی ایک جھلک دیکھنے دیوانہ وار نکل کھڑے ہوئے۔

ان گنت معصوم مہاجرین، ہندو اور سکھ بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور اپنی جانیں قربان کر دیں، لا تعداد عزتیں تار تار ہوئیں، بے شمار بچے بھوک پیاس اور سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکے اور دم توڑ گئے۔

شاید ہی کوئی خاندان ہو جو ہجرت کر کے پورا صحیح وسالم پاکستان آیا ہو، بہت سوں کے ساتھ تو ایسا بھی ہوا کہ گاڑی بھرا پورا خاندان بلوائیوں کے ظلم وبربریت کا شکار ہوا اور کوئی ایک فرد بھی اپنی منزل مقصود پر نہ پہنچ سکا اور آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لینے کی تمنائیں سینوں میں ہی دم توڑ گئیں۔

جو بچے کھچے لوگ پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے، انھیں بھی بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ روح اور جسم کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے انھیں چار دیواری، چھت، خوراک، لباس اور دواؤں کی اشد ضرورت تھی۔ مگر اس وقت نو زائیدہ ریاست کے پاس اتنے وسائل تھے نہ یہ اتنا وزن برداشت کرنے کے قابل تھی۔ آزاد وطن کے باسیوں نے قیام پاکستان کے بعد طویل عرصہ تنگی و دشواری میں گزارا مگر صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

مجھے ایسے بے شمار لوگوں کے ساتھ ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا جو تقسیم ہند کے وقت عین عالم شباب میں تھے، ان میں ایسے بھی تھے جو ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے اور وہ بھی تھے جو قیام پاکستان سے قبل اسی خطے میں آباد تھے اور بعد از تقسیم بھی یہیں مقیم رہے، انھوں نے کھلی آنکھوں سے زندگی اور موت کا خطرناک کھیل دیکھا، ان کے سینوں میں پر اسرار داستانوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ دفن تھا۔ اگر ایک کہانی کو کریدا تو اس سے جڑی اور بہت سی دلچسپ کہانیاں نکل آئیں۔

لیکن ہم اپنے اردگرد اب نظر دوڑائیں تو ہمیں فی زمانہ وہ لوگ بہت کم نظر آتے ہیں جو قیام پاکستان کے وقت ہوش و ہواس میں تھے جنھوں نے اس بٹوارے کو کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ لوگ یا تو دنیا سے جا چکے ہیں یا اپنی عمر کی آٹھویں، نویں دہائی میں پیرانہ سالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کی اعضاء و جوارح نحیف ہوچکے ہیں، ان کی سماعت و بصارت کو کمزوری گھیر چکی ہے، ان کی گویائی ماند پڑ چکی ہے۔ وہ نحیف الجثہ ہوچکے ہیں۔ مگر آپ ایک تجربہ کیجے، محبت سے جا کر ان کی پائنتی کی اور بیٹھ جائیے اور ان سے ان کے بچپن، ان کی شرارتوں، ان کے دوستو، سکھیوں، ان کے کھلونوں، ان کی کھیتوں، ان کے جانوروں، ان کی فصلوں، ان کے بھائی بہنوں، ان کے پڑوسیوں، ان کی ہجرت کے حالات، ان کی مشکلات ان کی تنگ دستیوں، ان کی ناکامیوں ان کی کامیابیوں کے بارے میں سوال کریں۔

یہ اٹھ کے بیٹھ جائیں گے، آپ کو یوں لگے گا ان کی طاقت لوٹ آئی ہے، ان کی قوت گویائی میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا ہے، ان کی آنکھیں چمکنے لگی ہیں، ان کے ہونٹ تھرتھرانے لگے ہیں، ان کے ہاتھ ہلنے لگے ہیں۔ وہ آپ سے رنگ رنگ کی گفتگو کرنے لگیں گے، آپ کو وہ باتیں ملیں گی کہ عقل دنگ رہ جائے گی، یہ اپنے حافظے سے علم و حکمت کے وہ خزانے نکال کر لائیں گے جو آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے۔ یقین کیجیے کہ یہ سن رسیدہ زندہ لوگ چلتی پھرتی یونیورسٹیاں ہیں، مگر ہمارے پاس ان سے علم حاصل کرنے کا وقت ہی کہاں ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ عمر رسیدہ لوگ اپنی نئی نسل سے کیا مانگتے ہیں ہمارے دادا دادی، نانا نانی یا بوڑھے والدین ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ کیا انھیں پیسہ چاہیے، زمین جائیداد چائیے، سونا چاندی چاہیے؟ نہیں بالکل نہیں وہ ان مادی اشیا کا دریا عبور کر کے ایسے مقام پر آ چکے ہیں جہاں انھیں ہم سے ایسی کوئی چیز درکار نہیں ہے۔ انھیں اگر کچھ چاہیے تو وہ ہے ہمارا تھوڑا سا وقت، ہماری تھوڑی سی توجہ، محبت اور اپنایت سے بھرے دو میٹھے بول۔

یہ میٹھے بول، توجہ اور پیار ان کا جگر ٹھنڈا کرنے کے لیے، ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے، ان کی آسودہ دلی کے لیے اور کئی معمولی عوارض کو مار بھگانے کے لیے اکسیر کا کام کریں گے۔ یقیں کریں اگر ہم ایسا کر لیں تو ہمیں ان کے لیے دوائیں بہت کم لینا پڑیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).