سمیع چوہدری کا کالم: اگر مصباح کو گھر بھیج دیا جائے؟


پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس وقت گہرے پانیوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ادارے کے دو بڑوں، احسان مانی اور وسیم خان کے درمیان اختلافات کی خبریں گرم ہیں۔

دروغ بر گردنِ راوی لیکن اگر ان خبروں میں کچھ بھی صداقت ہے تو یہ پاکستان کرکٹ کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں قومی ٹیم کی فتوحات گھٹتی گئی ہیں اور ناکامیوں کی داستانیں متواتر بڑھتی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس ’تبدیلی‘ کا بیڑا اٹھایا گیا تھا، اسے اپنے اثرات ظاہر کرنے کے لیے وقت کتنا دیا گیا؟

عمران خان جب کپتان تھے، تب سے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے خلاف تھے اور اقتدار ملتے ہی اُنھوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کا نیا ڈھانچہ متعارف کروا دیا۔ کرکٹ کی کوالٹی کو تو اس سے جو فائدہ ہوا، سو ہوا مگر کئی کرکٹرز کے چولہے بجھ گئے۔

یہ بھی پڑھیے

’اتنی صبح اٹھنے کا کیا فائدہ جب ٹیم نے مایوس ہی کرنا ہے‘

’مجھے تو کل کے دن بیٹنگ گرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، کسی سے کوئی امید نہیں’

’اُف پاکستان کرکٹ! منٹو بھی ایسی کہانیاں نہ لکھ پاتے۔۔۔‘

اب اس بنیاد پر ابھی سے کوئی فیصلہ کر چھوڑنا درست نہیں کہ نیا ڈھانچہ کامیاب ہوا یا ناکام۔

تجرباتی فیصلوں کو صرف ایک ڈیڑھ سال کے مشاہدات کی بنیاد پر بدلا نہیں جا سکتا۔ ان کے حقیقی اثرات دیکھنے کے لیے صبر اور تسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یونس خان سمیت کئی سابق کرکٹرز ماضی میں پی سی بی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ کوئی ذاتی عناد نہیں بلکہ پی سی بی کی متلون مزاجی ہے جہاں راتوں رات فیصلے بدلنے کے سبب فریقین کے درمیان اعتماد کا فقدان رہتا ہے۔

لیکن احسان مانی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بہت سے معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دیے ہیں۔

وسیم خان کا تقرر بہت اچھا فیصلہ تھا۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو اپ گریڈ کر کے ہائی پرفارمنس سنٹر میں بدلنا، محمد وسیم اور ثقلین مشتاق جیسے سابق کرکٹرز کو انتظامی دھارے میں لانا اور ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار میں بہتری ایسے فیصلے ہیں جن کے ثمرات ظاہر ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔

کرکٹ، پاکستان، نیوزی لینڈ

پاکستانی ٹیم نے حال ہی میں نیوزی لینڈ میں کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے شکست کھائی ہے

ان تمام فیصلوں سے کہیں زیادہ انقلابی اقدام قومی ٹیم کے کوچنگ سٹاف کی تبدیلی تھا۔ پہلی بار کوچنگ سٹاف میں غیر ملکی چہرے غائب ہوئے اور مصباح، وقار یونس، یونس خان وغیرہ لائے گئے۔

ان فیصلوں کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں شاید عمران خان کی رائے کا عمل دخل تھا۔

مسئلہ یہ بھی ہوا کہ اس نئے کوچنگ سیٹ اپ کے آتے ہی ٹیم کے اسائنمنٹس زیادہ تر مشکل کنڈیشنز میں تھے۔

نئے سیٹ اپ کا پہلا غیر ملکی دورہ ہی آسٹریلیا کا تھا جہاں پاکستان کو کوئی ٹیسٹ میچ جیتے ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ ہو چکا ہے۔

غیر ملکی دورے عموماً قومی ٹیم پر بھاری ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ایک طرف مشکل کنڈیشنز میں سخت کرکٹ کھیلنی پڑتی ہے تو دوسری طرف میڈیا موقع کی تلاش میں بیٹھا ہوتا ہے اور ذرا سی کوتاہی کو بھی رائی کا پہاڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔

مصباح الحق نے بطور سلیکٹر جو فیصلے کیے، ان میں کچھ تو حالات اور دستیاب وسائل کی دین تھے مگر کئی ایک ایسے بھی تھے جہاں وہ بجا طور پہ قصور وار دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ اظہر علی کو قیادت دینا بھی تھا۔

اگر اظہر علی کپتان نہ ہوتے تو پاکستان انگلینڈ سے ٹیسٹ سیریز جیت کر لوٹتا اور مصباح کے لیے بھی حالات سازگار رہتے۔

بعینہٖ سرفراز احمد کو یکایک ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دینا بھی ایسا ہی فیصلہ تھا جو ٹیم اور مصباح دونوں کے لئے مہنگا ثابت ہوا۔

سرفراز کی فارم بلاشبہ گر رہی تھی مگر ان کا ٹی ٹوئنٹی کپتانی کا ریکارڈ بہرحال قابلِ رشک رہا ہے۔

سرفراز احمد، کرکٹ، چیمپیئنز ٹرافی

سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان نے پہلی مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیتی تھی

مصباح کا یہ مؤقف کافی حد تک درست ہے کہ اگر نیوزی لینڈ میں ٹیم کو ایسے عجیب و غریب قرنطینہ پروٹوکولز سے نہ گزرنا پڑتا تو کارکردگی کا معیار بہت بہتر ہوتا۔

اور فی الوقت یہی ایک دلیل ہے جس پر مصباح کی بقا کی ساری عمارت کھڑی ہے۔ لیکن اگر جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں پاکستان نے واضح برتری نہ دکھائی تو یہ ساری عمارت گر جائے گی۔

سوال یہ نہیں ہے کہ ایسی صورتِ حال میں پی سی بی کیا کرے گا، یہ تو بالکل عیاں ہے کہ اگر پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز نہ جیت سکا تو مصباح کو گھر کا رستہ دکھا دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد قومی ٹیم کی باگ ڈور کس کے ہاتھ دی جائے گی؟

میڈیا کا دباؤ اور جھکاؤ تو ابھی سے واضح ہو رہا ہے۔ سبھی اپنی اپنی جیبوں سے ’ذرائع‘ نکال کر پھر رہے ہیں۔ کوئی اینڈی فلاور کی آمد کی اطلاع دے رہا ہے تو کوئی گیری کرسٹن کی خبریں چلا رہا ہے۔

اور پی سی بی کا میڈیا کے دباؤ میں آ کر فیصلے کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے فیصلے عموماً پاکستان کرکٹ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔

کرکٹ

ساتھ ہی یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جس طرح سے کرکٹ کمیٹی نے کوچنگ سٹاف کو ایک سیریز کی مہلت دی ہے، یہ بھی کسی عدالتی سٹے آرڈر جیسا معاملہ ہے۔

ایسے میں ڈریسنگ روم کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے جب ہر کھلاڑی یہ جانتا ہو کہ کوچ کا مستقبل اس کی کارکردگی سے مشروط ہو چکا ہے۔

یہ بے یقینی کی صورتِ حال تو اس سیریز کے بعد ختم ہو ہی جائے گی لیکن اگر پی سی بی مصباح سے آگے سوچنا شروع کرتا ہے تو نئے کوچنگ سٹاف کی آمد سے ایڈجسٹمنٹ تک کے دورانیے میں پاکستان کو مزید کتنے میچوں اور کتنی سیریز کی قربانی دینی ہوگی؟

سو، کیا مصباح کو نکال دینے سے پی سی بی کو سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے؟

مثبت پسندی کی خواہش اپنی جگہ مگر حقیقت پسندی اس کا جواب اثبات میں نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp