پیر کا جن اور ڈاکٹر کا انجکشن (سندھی افسانے کا ترجمہ)



سمیرہ تڑپ رہی تھی کسی ذبح شدہ جانور کی طرح۔

رات کا پہلا پہر تھا۔ اسے پھر دورہ پڑا تھا۔ اس کے تڑپنے پر اس کی بہن ثمینہ کی آنکھ کھل گئی۔ جس نے اس کے سرہانے کی طرف سے آ کر اس کو دونوں بازوؤں سے مضبوطی سے پکڑا۔ بمشکل چند لمحے ہی گزرے کہ ان کی ماں بھی وارڈ کے باتھ روم سے اپنے لان کے دوپٹے کے پلو سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے نکلی، تو سمیرہ کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر، جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے، آ کر اس کے بیڈ،  بیڈ نمبر 6 کے پاس پہنچی اور اس کے پیروں کی جانب کھڑی ہو کر، اپنی بیٹی کی پنڈلیوں سے اپنے دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑا۔ ثمینہ اور اس کی ماں، تڑپتی ہوئی سمیرہ کو بیڈ سے گرنے سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کر رہی تھیں۔

سفید، دودھ جیسے بازوؤں اور ٹانگوں پر ہری باریک خواہ موٹی نظر آتی نسیں۔ کسی بہت ہرے بھرے پودے کی کھینچ کر نوچی ہوئی ڈالی کا مظہر بنی ہوئی تھیں۔

تکیے سے سر سرکا ہوا۔ ادھر ادھر جھانکتی تیس ایک برس کی سمیرہ کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ وہ اپنے بس میں نہ تھی۔ بلکہ ان دونوں کے بس میں بھی بمشکل۔

ثمینہ نے وارڈ کی دیوار کے پاس والی کھڑکی سے باہر کاریڈور کی طرف دیکھا، جہاں سے اسے ڈاکٹر اپنے کمرے میں بیٹھا نظر آیا کرتا تھا۔ مگر اس وقت اسے وہاں ڈاکٹر کی کرسی خالی نظر آئی۔

وہ پریشانی کے مارے وارڈ سے باہر آئی۔ کاریڈور میں لوہے کی گرل کے پاس رکھی کرسی پر بڑی مونچھوں والا ہسپتال کا واچ مین دیوار سے ٹیک لگائے، زوردار خراٹے مارتے ہوئے، خواب خرگوش میں مدہوش تھا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی ہوا پر اس کی مونچھیں اوپر نیچے پھڑکتے ہوئے جنبش کر رہی تھیں۔

”چاچا!
او چاچا! ”
ثمینہ نے واچ مین کو بلایا اور وہ ایک دم اچھل کر نیند سے جاگ گیا۔
”کیا ہوا بابا؟ خیر تو ہے؟“ اس نے گھبراہٹ کے مارے پوچھا۔
”چاچا۔ اٹھیں۔ جلدی ڈاکٹر کو بلائیں۔
میری۔
میری بہن۔ ”

چوکیدار، ثمینہ کے ادھورے فقرے کے باوجود اس کی بات سمجھ گیا اور وارڈ بوائے کو ڈاکٹر کو کال کرنے کے لیے جگایا اور جھٹ میں واپس آ کر ثمینہ کو بتایا:

”بچے۔ ڈاکٹر کو فون کیا ہے۔ بس ابھی آئے۔ ’لال بتی‘ گئے ہوئے ہیں۔“

وہ دوڑتی ہوئی واپس وارڈ میں بہن کے بیڈ کے پاس آئی، جسے اس کی ماں کبھی سرہانے کی جانب سے تو کبھی پاؤں کی طرف سے پکڑ کر سنبھال رہی تھی۔

ثمینہ پھر آ کر اس کے سر کی جانب سے آن کھڑی ہوئی۔ اپنی بہن کی ایسی حالت دیکھ کر وہ سخت ذہنی اذیت سے گزر رہی تھی۔

اس نے وارڈ کی اداس دیوار پر لٹکی۔ بوسیدہ گھڑی کی جانب دیکھا۔ جس کی دونوں سوئیاں لگ بھگ زنگ آلود ہو چکی تھی۔

رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔

اتنے میں ڈاکٹر کے جوتوں کی ”ٹھک۔ ٹھک۔“ کی آواز کی جانب ثمینہ کی توجہ مبذول ہوئی۔ ڈاکٹر وارڈ میں وارد ہو چکا تھا۔

ثمینہ اور اس کی ماں کے کچھ بتانے سے پہلے ہی ڈاکٹر نے کہا:
”پھر دورہ پڑا ہے کیا؟“
خشک ہونٹوں کو بند رکھتے ہوئے، گردن ہلا کر دونوں ماں بیٹی نے اثبات میں جواب دیا۔
”گھبرائیں نہیں!
میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں آرام آ جائے گا۔ ”

اس دن سمیرہ کو ہسپتال میں داخل ہوئے دوسرا دن پورا ہوا تھا۔ مگر ثمینہ کو یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ پیدا ہی اسی وارڈ میں ہوئی ہو اور صدیوں سے اسی ذہنی گھٹن کے ماحول میں جی رہی ہو۔

اتنے میں اسٹریچر پر ایک ادھیڑ عمر، لگ بھگ چالیس برس کی خاتون کو دو مرد اور ایک عورت لیے وارڈ میں داخل ہوئے۔ اسٹریچر پر لیٹی عورت نے اپنی آنکھیں بھینچ کے بند کی ہوئی تھیں اور وہ بے ہوش محسوس ہو رہی تھی۔

ثمینہ نے اپنی ہمشیرہ کی طرف ایک نظر دیکھا۔ جس کی آنکھیں تب تک انجکشن کے اثر کی وجہ سے بند ہو چکی تھیں اور اس کا جسم ڈھیلا پڑتے پڑتے، سکون میں آ چکا تھا۔

ثمینہ سمجھ گئی کہ اب گھڑی سوا کے لیے ہی سہی، وہ سکون کی نیند سو چکی ہے۔

ثمینہ، سمیرہ کے بیڈ سے دو چار قدم اٹھا کر، نئی لائی گئی اپنی وارڈ پڑوسن مریضہ کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔ ڈاکٹر نے اس بے ہوش خاتون کے اوپر آ کر اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔

”نام کیا ہے تمہارا؟“
بے سدھ مریضہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کے ساتھ آئی ہوئی خاتون نے جواب دیا:
”سلمیٰ۔
”سلمیٰ ہے نام۔“
ڈاکٹر نے، سلمیٰ کی پیشانی کو اپنی انگلی کی ہڈی سے کھٹکھٹایا۔
سلمیٰ نے ہڈی کے اس لمس سے اپنی آنکھیں جھپکائیں۔

ڈاکٹر نے سلمیٰ کو بازو میں انجکشن لگا کر، روئی کی کلی کو اس کے بازو پر مسل کر، وہی روئی اس کی ناک پر رکھ کر سنگھانے کے بعد اس کے منہ پر رکھی۔ تو سلمیٰ نے پلکیں جھپکا کر اپنی آنکھیں کھولیں۔

ڈاکٹر نے سلمیٰ کو اپنی آدھی ناک پر رکھے نظر کے چشمے کے شیشوں کے اوپر سے گھورا اور اس کے اٹینڈنٹس کو اس کو کھلانے کے لیے نیند کی گولی دی۔
تھوڑی ہی دیر میں ٹیبلیٹ نے اثر دکھایا اور سلمیٰ بھی سکون کی نیند سو گئی۔
ثمینہ واپس آ کر بہن کے بیڈ کے پاس رکھی لوہے کی بینچ پر بیٹھی۔

دس بیڈز پر مشتمل ’فیمیل سائیکالاجیکل وارڈ‘ ۔ جس کے لگ بھگ آدھے بیڈ خالی تھے اور پانچ چھ بستروں پر مختلف مریض تھے۔ سمیرہ بیڈ نمبر 6 پر تھی۔ جو وارڈ کے داخلی چھیڑے پر تھا۔ وارڈ کی مغربی دیوار رسن زدہ۔ جس کی وجہ سے اس دیوار کا رنگ بھی تقریباً اتر چکا تھا۔ مشرقی دیوار کا رنگ بھی چغلی کر رہا تھا کہ اس دیوار کو بھی طویل عرصے سے رنگ کا ہاتھ نہیں لگا۔ وارڈ میں لگے چار ادھ زنگ زدہ پنکھوں میں سے ایک سست رفتاری سے گھوم رہا تھا، جس کی مشین کراہنے کی ہلکی آواز بھی نکال رہی تھی۔ جیسے وہ اپنے جیون کو زبردستی کھینچ رہا ہو۔ وارڈ میں لگی دھول میں اٹی چاروں ٹیوب لائیٹس کی دھیمی روشنی، دھول کی اس تہہ کے پیچھے سے جیسے جلنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں۔ ثمینہ کو اپنے آس پاس کی ہر چیز جیسے اپنی طرح لاغر، تھکی، لاچار، بوجھل اور بیوش لگ رہی تھی۔ زیست سے بیزار۔ موت کی متمنی۔

اس نے وارڈ کی دیواروں پر لگی مختلف طبی ہدایات پر مشتمل تصاویر اور پوسٹرز کو ایک نظر دیکھتے اور پڑھتے ہوئے پھر ایک نظر اسی بوسیدہ گھڑی پر ڈالی۔

صبح کے پونے چار بج رہے تھے۔
وقت جیسے رینگ رہا تھا۔
ثمینہ کو لگ رہا تھا جیسے وقت اسے گزار رہا ہو۔ وہ وقت کو نہیں۔

اس کے لیے یہ وقت بہت بھاری تھا۔ بظاہر ایک تازہ پو پھوٹنے والی تھی۔ مگر ثمینہ کے جیون کی طویل نا امید رات کی صبح اسے خود سے بہت۔۔۔ بہت دور لگ رہی تھی۔ نیند بھی اس سے روٹھی تھی۔ سینکڑوں نوری سال دور۔

سمیرہ کے بیڈ کے برابر والے بیڈ، بیڈ نمبر 5 پر کوئی مریض نہیں تھا۔ ثمینہ نے اس بیڈ کی سائیڈ میں رکھی زنگ آلود لوہے کی سائیڈ ٹیبل کی جانب دیکھا، جس کے اوپر والے ادھ کھلے خانے کی بیچ والے اسپیس میں اسے گول لپٹا ہوا اخبار گھسا ہوا نظر آیا۔ جو شاید کوئی پڑھ کر، وہاں چھوڑ گیا تھا۔ وہ اپنی بنچ سے اٹھ کر، اس سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھی اور اخبار نکال کر واپس آ کر اپنی بنچ پر بیٹھ کر اسے پڑھنا شروع کیا۔ وقت کو اور بھلا کس طرح کھینچتی! اخبار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ دو دن پہلے کا شام کا اخبار تھا۔ ’دکھیاری کو دکھ بھی بے شمار‘ ۔ اس کی پہلی نظر جس خبر پر پڑی، اس نے ثمینہ کا کلیجہ چھلنی کر دیا۔

”کیسا وقت آ گیا ہے۔ روز معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے بھیڑیے، نفسیاتی مریض ایسے کیوں کھلے گھوم رہے ہیں۔ وحشی درندے۔ اپنے شاگرد تو ویسے بھی اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔“ وہ خبر پڑھ کر، اپنے منہ بڑبڑائی۔

اس کا حلق ایک دم خشک ہو گیا اور آنکھوں میں بھاری اشک بھر آئے۔ ثمینہ کا دھیان فوراً اپنی نو سالہ معصوم بیٹی ارم کی طرف دوڑا۔

”پروردگار! ہر کسی کے معصوم بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا!“ اس نے بے ساختہ دعا کے کلمات اپنے منہ سے دھیرے سے ادا کرتے ہوئے اپنے دوپٹے کے کونے سے اپنے خاموش آنسو پونچھے اور اخبار کا اندرونی صفحہ کھولا۔

”معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار اور نفسیاتی بیماریوں کی فروغ پاتی تعداد“ ۔

اس کی نظر، ادارتی صفحے پر شائع شدہ، اس عنوان کے تحت لکھے ہوئے کالم پر پڑی۔ اس کے سر پر جیسے ایک دم سے بوجھ بڑھ گیا۔ اس نے گھبرا کر اخبار اپنی برابر والی ٹیبل کے خانے میں رکھ دیا۔

اس نے جس موضوع سے اپنی توجہ ہٹانے کی غرض سے اخبار اٹھایا تھا، اسے اس میں بھی وہی نظر آیا۔ اس کی گھٹن بڑھ گئی۔

اپنا دھیان ادھر ادھر کرنے کی کوشش میں اس نے سمیرہ کی کیس فائل اٹھا کر اس میں لگی رپورٹس اور دوا کے نسخوں کے کاغذ، ایسے ہی پلٹنا شروع کیے ہی تھے کہ اچانک اسے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔

اس نے دیکھا کہ بیڈ نمبر 4 کی مریضہ۔ تقریباً سولہ سترہ برس کی نوخیز لڑکی۔ اس نے بھی ہرے، سرخ، سیاہ مختلف قسم اور رنگوں کے گٹھانیں لگے دھاگے گردن میں پہنے ہوئے تھے۔ اپنے آس پاس کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی اور بہ آواز بلند اپنی ماں کو کوس رہی تھی۔

”تم ہی نے میری زندگی برباد کی ہے۔ تم میری خیر خواہ نہیں ہو، دشمن ہو۔ تم ہی سب سے بڑی دشمن ہو میری۔ ”

ثمینہ بینچ سے اٹھ کر اس مریضہ کی والدہ کی طرف بڑھ آئی، جس نے معصوم نگاہوں سے بغیر پوچھے اسے بتایا۔ جیسے ثمینہ ان چیخوں کی وجہ پوچھنے کے لیے اس کے پاس آئی ہو۔

”بیٹا۔ نل کے قریب سرسوں کا پیڑ ہے۔ گاؤں میں، یہ وہاں ننگی نہاتی پھرتی ہے۔ سایہ ہو گیا ہے اس پر۔“
”سایہ؟“ ثمینہ نے مارے حیرت کے پوچھا۔
”اس کو ایک ’جن‘ چمٹا ہے بیٹی!

گاؤں کے مولوی اشرف نے بھی بہت کوشش کی۔ جتنی اس کے بس میں تھی۔ بہت دم درود کیا مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ ہر ماہ کے پہلے پیر کی رات کو ’جوسب شاہ جیلانی‘ کی درگاہ پر بھی پوری پوری رات حاضری دے کر آئے ہیں۔ مگر بیٹا! ایک دھیلے کا فرق نہیں پڑا۔ اس کا جن تو بولتا بھی ہے۔

یہاں تو بس استاد شمس کے کہنے پر آئے تھے جو میرے بڑے بیٹے کا بیلی ہے۔ صبح کا سورج نکلے تو ’میان پیر‘ پر جائیں گے۔ بس اللہ کرے کہ جن راضی ہو جائے۔ نہیں تو ان ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں ہے بیٹا! ”

مریضہ کی ماں ایک ہی سانس میں، اپنی بیٹی کی بیماری کی بابت اپنی عقل کی سطح کے مطابق اپنے دلائل اور عذر دیتی گئی۔ اور ساتھ ساتھ علاج بھی خود ہی بتاتی گئی۔

”جن! ؟“ ثمینہ کی بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

اس نام نہاد جن کے اثر میں مبتلا مریضہ کی ماں سے نظر بچاتے ہوئے، ثمینہ ڈاکٹر کے کمرے کی جانب آئی۔ اسے بیڈ نمبر 4 کی اس مریضہ کی حالت بتائی اور اپنے ہمراہ لے آئی۔

ڈاکٹر انجکشن بھر کر  لے آیا جو آ کر بیڈ نمبر 4 کی اس مریضہ کو بازو میں لگا دیا۔ انجیکشن لگنے سے وہ بھی باقی مریضوں کی طرح ٹھنڈی پڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سو گئی۔

ایسا لگ رہا تھا، جیسے اس وارڈ کی تمام مریضاؤں کا علاج اس ایک ہی قسم کے انجکشن میں ہو۔
”ڈاکٹر صاحب! جن! ؟“
ثمینہ نے حیرت اور خوف کے مارے کھلی آنکھوں سے، ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے۔ نامکمل سوال کیا۔
”ہنہ ننں۔ جن!“
ڈاکٹر  نے بے نیازی سے طنزیہ انداز میں مسکراہٹ سے جواب دیا۔

ڈاکٹر، مریضہ کو لگائے ہوئے انجکشن کی سوئی اوپر کر کے، اپنی آنکھوں کی سیدھ میں عمودی پکڑ کر، اس میں سے دوا کا آخری قطرہ ہوا میں خارج کرتے ہوئے، بڑبڑایا:

”میرے 13 سالہ تجربے کے دوران دنیا کا کوئی بھی ایسا جن نہیں آیا، جو میرے انجکشن لگنے سے سویا نہ ہو۔“

افسانہ نگار: نصرت سکندر

(مترجم: یاسر قاضی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).