ہندوستان کے مذہبی مدارس کا المیہ


جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی صاحب کا یہ اعلان خوش آئند ہے مگر پھر بھی کافی نہیں ہے۔ آج سے 155 سال قبل یعنی 1866 میں جب دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا تھا اسی وقت اس کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اغراض و مقاصد میں لکھا تھا کہ : ”انسان اسی چیز کے حصول کی کوشش کرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی ہے۔ انگریزوں کے زیر اہتمام سرکاری مدرسوں (اسکولوں ) کے نصاب میں دینی تعلیم کا سبجیکٹ نہیں ہے، دوسری طرف عیسائی مشینریاں شدت سے عیسائیت کی تبلیغ کرنے میں سرگرم ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان میں دین کے مٹنے، ارتداد اور مسلمانوں کا دین سے نابلد رہ جانے کا اندیشہ ہے اس لئے خالص دینی مضامین پر مشتمل نصاب پر مبنی یہ مدرسہ قائم کیا گیا ہے۔ ہمارے طلباء یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری مدرسوں (اسکول و کالج) میں داخلہ لیں اور امتیازی درجات سے کامیابی حاصل کریں۔“

( اسی خطرہ کو ہندوؤں کے دینی رہنماؤں نے بھی محسوس کیا تھا اور 1886 میں سوامی دیانند سرسوتی کی یاد میں پنڈت ہنس راج نے لاہور میں ڈی اے وی دیانند اینگلو ویدک اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر انہوں نے وقت کی نبض کو پہچانا اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ویدک تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کو نصاب میں شامل کیا اور پورے ملک میں اس اسکول کا جال بچھا دیا)

1866 یوم تاسیس سے ماقبل آزادی 1947 تک استعماریت کا تسلط تھا اس لئے قرآن اور اس کی تفسیر، حدیث اور اس کی تشریح اور فقہ کا تحفظ اولین ترجیح تھی لیکن ملک آزاد ہونے کے بعد صورت حال مختلف تھی مدارس کے نصاب میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کا نظم کیا جا سکتا تھا، لیکن مدارس کے ارباب حل و عقد نے جمود کی ایسی چادر اوڑھی کہ آج تک کسی قسم کی اصلاح کو ”حرام“ سمجھتے ہیں۔ دنیا کی سبھی درسگاہوں (بورڈ) میں نصاب پر نظر ثانی کے لئے کمیشن تشکیل دی جاتی ہے جو موجودہ حالات کے لئے مناسب اور مفید مواد کو شامل کرے اور غیر مفید اور غیر متعلق irrelevant مواد کو خارج کر کے اس کی جگہ relevant مواد کو شامل نصاب کرے۔

مگر افسوس ارباب حل و عقد مدارس نے عصری تعلیم کی شمولیت کو شجر ممنوعہ سمجھا۔ مدارس دینیہ میں درس نظامی کی اس وقت کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں بھی حسب ضرورت کسی قسم کی ترمیم، حذف، اضافہ یا تبدیلی کرنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ چنانچہ کرنسی روپے پیسے کی بجائے دینار، درہم، اوزان کیلو گرام، ملی گرام کی بجائے رطل ،تولہ ، ماشہ وغیرہ، مسافت کیلو میٹر کی بجائے میل ۔ عرض و طول میٹر سنٹی میٹر ،فٹ اور انچ کی بجائے گز ،بالشت اور ہاتھ ( ذراع) ، غلہ کا پیمانہ صاع یعنی موجودہ دور کے اوزان اور سکہ رائج الوقت کی اصطلاحات کی بجائے فقہ کی کتابوں میں اس وقت کی اصطلاحات پڑھائی جاتی ہیں یہی وجہ کہ، بعض استثناءات کے ساتھ، عام مولوی سے پوچھیں کہ زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے تو اس کا فوری جواب ہوگا ساڑھے سات بھر سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت!

اب عام مسلمان جو زکٰوۃ ادا کرنا چاہتا ہے وہ کیا کرے؟ اور عام مولوی جسے تولہ اور ماشہ پڑھایا گیا ہو وہ ساڑھے سات تولہ سونا کی بجائے 87.47 ساڑھے ستاسی گرام سونا یا 612 گرام چاندی کیسے بتا پائے گا؟ بہت سے لوگ اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی کے وقت مہر فاطمی طے کرنا چاہتے ہیں مگر قاضی نکاح کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ ملازمت، تجارت اور شراکت کے اصول کی تطبیق موجودہ دور کی اصطلاحات سے نہیں ہونے کی وجہ سے عام آدمی اور عام مولوی کو دارالافتاء کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

جمود کے حامی علماء ہمیں یہ کہ کر چپ کرانے کی کوشش کریں گے کہ ”جدید فقہی مسائل“ پر مارکیٹ میں کتابیں دستیاب ہیں ضرورت مند ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نصاب میں فقہی کتابوں کی اصطلاحات کی تجدید کاری ماڈرنائزیشن ”حرام“ نہیں ہے دوسری بات یہ کہ نصاب میں لازمی سبجیکٹ کی حیثیت سے پڑھی ہوئی اصطلاحات اور معنی و مفہوم جس طرح ذہن نشیں ہی نہیں ازبر ہو جاتی ہیں وہ شوقیہ کتابیں خرید کر پڑھنے سے نہیں ہوتیں اس لئے کہ نصاب میں درجہ بہ درجہ انہی اصطلاحات کو پڑھنا اور یاد کرنا ہوتا ہے۔

ضرورت ہے کہ معاشرتی معاملات، قوانین کی خلاف ورزیوں اور تاوان وغیرہ سے متعلق مسائل جو فقہی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہیں ان کا تعزیرات ہند کے ریفرنس کے ساتھ جہاں تک ممکن ہو پڑھایا جائے۔ انشورنس، شیئر، پارٹنر شپ اور تجارت کی مختلف اقسام کا فقہی مسائل کے ساتھ تطبیق کر کے پڑھایا جائے۔ تقسیم ترکہ یعنی وارثوں میں منقولہ و غیر منقولہ جائیداد movable and immovable پراپرٹی کی تقسیم کے لئے علم ریاضی میتھمیٹکس کا جاننا ضروری ہے لیکن بنیادی عصری علوم کی عدم شمولیت کی وجہ سے فارغین مدارس ریاضیات سے نابلد ہوتے ہیں یہ اور بات ہے علم الفرائض یعنی تقسیم ترکہ کی کتاب السراجی ان کے نصاب کا لازمی حصہ ہے۔

ملی تنظیموں اور رفاہی اداروں کی جانب سے تعلیمی وظائف دینا قابل ستائش ہے مگر تعلیمی وظائف سے تعلیمی بیداری ہو گی یہ خام خیالی ہے۔

جمعیت علماء ہند کی طرف سے تعلیمی وظائف اور امارت شرعیہ کی طرف سے میڈیکل اور انجنیئرنگ کوچنگ کا نظم کافی نہیں ہے۔ ان دونوں ملی تنظیموں کے زیراثر زیادہ تر مدارس دینیہ ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کی طرف سے مدارس اسلامیہ کے نصاب کی تجدید کاری کی نہ صرف اپیل بلکہ اس کے لئے بنیادی کام مدارس کے لئے مرکزی بورڈ ، نصاب کے لئے مرکزی کمیشن کی تشکیل اور فقہی کتابوں کی تجدید کاری کی اشد ضرورت ہے۔

تعلیمی وظائف اور اسکالر شپ مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے لئے کافی نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں تنظیموں، (ویسے تو علیگ برادری کی بھی) کی بھی ذمہ داری ہے، کہ مدارس دینیہ کے طرز پر پورے ملک میں معیاری انگلش میڈیم۔ اسلامیات بطور لازمی سبجیکٹ کے ساتھ۔ اسکولوں کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا جائے۔

مذکورہ بالا دونوں تنظیموں پر زور اس لئے ہے کہ مسلمان اپنی تمام تر خستہ حالی کے باوجود دینی کام کے نام پر دل کھول کر تعاون کرتا ہے۔ پنج وقتہ نمازی ہو یا نہ ہو کروڑوں روپے کی لاگت سے مساجد تعمیر کراتا ہے۔ خدارا عصری تعلیم کو بھی دین کا حصہ قرار دیں ذمہ دار شہری بننے کے لئے ضروری قرار دیں اور عوام کے ذہنوں میں یہ راسخ کریں کہ معیشت کی بہتری کے لیے عصری تعلیم ریڑھ کی ہڈی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ دینی تعلیم اور دنیوی تعلیم کی تفریق کا نتیجہ ہے کہ دین سے وابستہ بہت سے افراد ایسے ہیں جو عصری تعلیم کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں دنیا ہمارے لئے نہیں ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی شاخ کھلی۔ اس شہر میں ویمنز کالج نہیں ہونے کی وجہ سے اور کو ایجوکیشن میں لڑکوں کی ہلڑ بازی سے تنگ آ کر بہت سی مسلم لڑکیوں نے بارہویں کے بعد تعلیم ترک کر دی۔ لڑکوں نے گھریلو ذمہ داریوں کے مدنظر مزید تعلیم کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ ایسے لوگوں کو موٹیویٹ کرنے کے لئے میں نے اشتہار لکھا : ”باپردہ لڑکیوں اور خواتین خانہ کے لئے خوشخبری، گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔“

بس کیا تھا ایک دینی جماعت کے ذمہ دار کی طرف سے سمن نوٹس جاری ہوا۔ ‌ میرے دوست جن کے نام سنٹر تھا ، انہوں نے کہا میں حضرت کا سامنا نہیں کر سکتا ہوں۔ بہرحال میں گیا تو ذمہ دار حضرت نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم تو دین کی تعلیم ہے ، آپ نے دنیوی تعلیم کے لئے اعلیٰ لفظ کا استعمال کیوں کیا؟ میں نے کہا higher education کا ترجمہ یہی ہے اس لئے میں نے لکھا۔ اور بھی کئی اعتراضات تھے جن کے بارے میں مجھے وضاحت کرنی پڑی۔

پچھلے ماہ ”نیکی کی دیوار“ لکھنے پر اعتراض کہ آپ کے یہاں قرآن کریم کی تعلیم اور فضائل کا بیان نہیں ہوتا تو آپ نے نیکی کی دیوار کیوں لکھا میں نے کہا ضرورت مندوں کو مستعمل مگر اچھی حالت میں صاف ستھرے گرم و دیگر کپڑے دینے کا نظم کرنا نیکی کا کام نہیں ہے؟ دین کو چند جسمانی عبادات اور وضع قطع میں قید کرنا مسلمانوں کی تعمیر و ترقی میں یہی پرسیپشن سب بڑی رکاوٹ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).