فٹنس اور ہمارا طرز زندگی


ماں جب بھی اپنی اولاد کو عرصے بعد دیکھتی ہے تو یہ بات ضرور کرتی ہے لڑکا کمزور ہو گیا ہے ، کچھ کھاتا پیتا نہیں ہے اور خاص طور پر جو لوگ مسافر ہوتے ہیں یا ہاسٹلز میں رہتے ہیں ۔ وہ جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن عموماً حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ وہ انسان جو اپنی والدہ کو کمزور نظر آتا ہوتا ہے دراصل اس کی صحت میں اضافہ ہو چکا ہوتا ہے اور اگر کبھی اتفاقاً وہ اپنا وزن کرتا ہے تو اس کو فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ آج سے اس نے ڈائٹ شروع کرنی ہے اور آئندہ سے کھانے پینے میں احتیاط ۔

ایسا شخص اگر فلم یا ڈرامے کا کوئی ہیرو دیکھ لیتا ہے یا پھر اسے اپنی ڈائٹ یاد آجاتی ہے لیکن جب کھانے کا ٹائم آ جاتا ہے تو پھر ڈائٹ کو کل کی تاریخ دی جاتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ڈائٹنگ پلان کو تاریخ پہ تاریخ دی جاتی رہتی ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق جو انسان روزانہ کی بنیاد پر ورزش کرتا ہے اور کھانے کے معاملے میں بھی محتاط ہوتا ہے، اس کی صحت، ذہنی نشوونما اور باڈی بہتر ہوتی ہے بمقابلہ ان لوگوں کی جو یہ کام نہیں کرتے۔

فٹ رہنے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان جِم کا رخ کرے بلکہ کسی پرفضا مقام پر واک یا ورزش کرے تو وہ اس سے بہتر ہے ، اگر گھر کے سامنے باغیچہ ہو یا کسی اور جگہ پر باغبانی کرے تو اس کے فوائد اور بھی زیادہ ہوں گے ۔ ورک آؤٹ کے ساتھ جو سب سے اہم چیز ہے وہ کھانے کے معاملے میں محتاط رہنا ہے۔

اب کچھ لوگ جب وزن گھٹانا چاہتے ہیں تو وہ قطعی طور پر خوراک چھوڑ دیتے ہیں جو کہ سراسر نقصان دہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیسے عام لوگوں میں یہ بات پھیلائی جائے کہ وہ خوارک بھی مناسب مقدار میں کھائیں اور فٹ بھی رہیں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں پر خواتین کو زیادہ مسئلہ ہوتا ہے جو مختلف قسم کے تجربات کر کے اپنی صحت خراب کر دیتی ہیں۔

سب سے پہلے ایسے انتظامات کیے جائیں،  ایسے پارکس بنائے جائیں جہاں پر صرف خواتین جا سکیں۔ دوسری اور اہم بات یہ کہ سٹوڈنٹس کو ان باتوں کی ترعیب دی جائے کہ انسان کیسے فٹ رہ سکتا ہے اور کالجز اور یونیورسٹیز میں ایسے پروگرام منعقد کیے جائیں جن سے طالب علموں کو فائدہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).