عشق، عورت اور عنکبوت


بہت دنوں سے ایک ناول میری توجہ کا منتظر تھا لیکن میں اپنی بھاگتی دوڑتی زندگی میں سے اس کے لیے وقت نکال ہی نہیں پا رہی تھی۔ یونہی کہیں چلتے پھرتے اس ناول کے اندر سے اٹھتی مہک اکثرمیرا دامن پکڑ لیتی اور میں اس کی دلنشیں مہک سے نظریں چرا کر اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔

یہ ناول مجھے پہاڑوں کی ایک ملکہ نے دیا تھا اور اس ناول کے اندر سے جھانکتی مصنفہ کی بہتے جھرنوں جیسی آنکھوں کا سامنا کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا اور مصنفہ بھی وہ جو آپ کے لئے بہت قیمتی ہو جس کے وجود کے اندر سے صرف محبت اور وفا کی باس اٹھتی ہو۔ جو کسی ایک لمحے میں آپ کے دل کے بہت قریب ہو چکی ہو اور اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی کہ ایسی قیمتی اور پیاری دوست کے دلنشیں جملوں سے سجے گلستان میں جانے کا آپ کے پاس وقت نہ ہو ، سو ناول بھی آتے جاتے مجھے اپنے اندر اترنے کی دعوت دیتا رہا۔ جنوری کی ایک سرد رات میں بالآخر میرا وجود گل ارباب کے لفظوں سے سجے گلستان ’’عشق ،عورت اور عنکبوت‘‘ میں داخل ہو گیا۔

گل ارباب محبت سے بنی ہیں تو لازمی بات تھی کہ انہوں نے محبت سے ہی کچھ تخلیق کیا ہو گا۔ ’’عشق ،عورت اور عنکبوت‘‘ گل ارباب کا پہلا ناول ہے جو کتابی شکل میں شائع ہوا۔ کتاب کھلتی ہے تو میری نظر سب سے پہلے ان چند خوبصورت جملوں کی طرف جاتی ہے جو گل نے صرف میرے لئے لکھے ہیں۔ ان جملوں سے جڑے گل کی سنگت میں گزارے گئے چند خوبصورت لمحوں کی یادیں اس لمحے میرے چار سو بکھر جاتی ہیں۔ ان یادوں سے باہر نکل کر سب سے پہلے انتساب مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

کیا خوبصورت انتساب لکھا ہے جس میں گل نے الف کی عظمت سے لے کر الف سے جڑے اپنے تمام تر رشتوں کی خوشبو کو بکھیر دیا ہے۔ پیش لفظ پڑھتے ہی آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ لکھاری کو لفظوں کا جادو چلانا خوب آتا ہے۔ ناول کا آغاز ہلکے پھلکے انداز میں ہوتا ہے۔ گل کی خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں وہ اپنے قاری کی آنکھوں میں نمی لانا جانتی ہیں وہیں اداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا بھی ان کو خوب آتا ہے۔ ڈاکٹر ولید اور سارہ عزیز خان کی ہلکی پھلکی نوک جھوک اس پورے ناول کا خوبصورت ترین حصہ ہے۔

گل کے لکھے گئے بے ساختہ جملے بہت مزہ دیتے ہیں۔ سارہ اور ڈاکٹر ولید کے درمیان نفرت سے محبت تک کا حسین سفر گل نے کیا خوب بیان کیا ہے۔ قطرہ قطرہ محبت کیسے ان دونوں کے وجود کو سیراب کر دیتی ہے۔ یہ آپ کو ناول پڑھ کر ہی معلوم ہو گا۔ ’’عشق،عورت اور عنکبوت‘‘ کا دوسرا حصہ شگفتہ اور ڈاکٹر ابراہیم کی محبت کی دردناک داستان ہے۔ محبت ثابت قدم ہوتی ہے اور اس کا آخری ٹھکانہ در محبوب ہی ہوتا ہے۔ شگفتہ کا المناک ماضی جس میں درد ہے ،آہیں اور سسکیاں ہیں۔

اس ماضی میں قاری کی ملاقات مومل جیسے کردار سے ہوتی ہے، جو دولت کی ہوس میں اپنے سگے رشتوں تک کو داو پر لگا دیتے ہیں۔ گل نے ان درد بھرے لمحات کو اس قدر خوبی سے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ قاری کو شگفتہ کے دل پر لگنے والی ہر چوٹ پر وہی درد ہوتا ہے جس درد سے وہ کردار گزرتا ہے۔ گل نے جہاں ہجر کے نمناک لمحات کو آہوں اور سسکیوں میں بیان کیا ہے وہیں ملن کے شوخ رنگوں کی قطار بھی خوب سجائی ہے۔

ناول میں تربیت کا موضوع زیربحث لایا گیا ہے کہ کس طرح ایک منفی سوچ رکھنے والی عورت کی بیٹی جب ایک مثبت ذہن رکھنے والی خاتون کے پاس آتی ہے تو اچھی تربیت کی وجہ سے وہ بھی دوسروں میں خیر بانٹتی پھرتی ہے۔ ناول کا خوشگوار انجام قاری کے چہرے پر مسکان بکھیر دیتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب وہ لفظوں کے اس گلستان سے باہر نکلتا ہے تو دوبارہ سے اسی گلستان میں داخل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور ایک اچھے ناول کی یہی خوبی ہے کہ آپ اسے ایک بار پڑھ کر دوبارہ پڑھنے کی خواہش ضرور کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).