پاکستانی سیاست میں مستحکم موروثیت کا سبب



ہماری قوم نفسیاتی اعتبار سے جذباتی واقع ہوئی ہے۔ جذباتی نعروں میں بہہ جاتی۔ کہیں کوئی جذباتی تقریر سن لی، اس جانب چل دیے۔ وہ مولوی ہوں یا سیاستدان، صحافی ہوں یا تجزیہ کار ، انہیں وہی پسند آتے جو انہیں جذباتی بحثوں میں الجھا دیتے۔ پھر ان میں ان پڑھ ہی نہیں اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں۔ ایسے میں اگر آپ انہیں حقائق کی دنیا میں لانے کی کوشش کریں تو آپ کو ناکامی ملے گی بلکہ ایسا شخص پسند ہی نہیں کیا جاتا۔ کبھی موقع ملا تو تفصیل سے ایک ایک جذباتی نعرے کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔ فی الحال موروثیت کو لے کر جو جذبات ہیں ، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

موروثیت کو لے کر ہمارے ہاں لوگ ملے جلے جذبات رکھتے ہیں۔ ایک طبقہ تو اسے لعنت سے تعبیر کرتا ہے اور اس پر اتنا غصہ نکالتا ہے کہ جیسے یہ گناہ عظیم ہو جب کہ دوسرا طبقہ اس کا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں ایک بہت ہی چھوٹا طبقہ اس پر بات کرتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیوں یہ موروثیت ہمارے ہاں اتنی مستحکم ہے؟

چونکہ یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اور ہماری قوم جذباتی موضوعات کو پسند کرتی ہے ، اس لیے اس چھوٹے طبقے کی بات بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ میری اس تحریر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو گا ، پھر بھی ہم جیسے طالب علم بات تو کریں گے ، چاہے کوئی ایک شخص بھی ہماری بات نہ سنے۔

موروثیت کا تاریخی جائزہ لینے سے قبل ضروری ہے اس کا معنی و مطلب متعین کیا جائے کیونکہ بغیر معانی و مطلب بیان کیے، بحث لا یعنی ہوتی ہے۔ موروثیت عربی سے مستعار لیا ہوا لفظ ہے۔ فرہنگ آصفیہ کے مطابق اس کے معنی ہیں: ”باپ دادا کا، وہ شے جو وارثی ہو، آبائی، جدی، پرکھوں کا، پتر پرایت، پشتینی، بپوتی، نسلی“ ۔ آکسفورڈ اردو۔ انگریزی لغت کے مطابق اسے انگریزی میں :

کہتے ہیں۔ ”Congenital، hereditary، lineal“

مختلف شعبہ زندگی میں یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ سیاست میں اس سے مراد ہے : ”قوت و اقتدار کو ایک خاندان کا استحقاق قرار دینا“ ۔ تمام اختیارات ایک خاندان تک محدود کر دیے جاتے ہیں اور آپ جتنا مرضی کام کر لیں اصل فیصلہ کن قوت ایک ہی خاندان ہوتا ہے۔ جیسے پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان اور نون لیگ میں شریف خاندان۔ تحریک انصاف میں بھی مختلف پارٹی عہدوں پر کئی خاندان قابض ہیں جو فیصلہ سازی میں اثر انداز ہوتے ہیں۔

یہی حالت جمعیت کی ہے اور حد تو تب ہو گئی جب ذوالفقار علی بھٹو کو موروثیت کا الزام دینے والے عبد الولی خان نے بھی اپنا جانشین اپنے بیٹے کو ہی بنایا۔ ہمارے دانشور اور لکھاری حضرات اس پر تنقید کرتے ہیں جو کہ ان کا حق ہے لیکن وہ ایک چیز پر توجہ نہیں دیتے کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ کیوں عبد الولی خان کو بھی اپنا جانشین اپنے بیٹے کو بنانا پڑا جبکہ وہ موروثیت کے خلاف تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

تاریخی حوالے سے ہم مسلمانوں کے سیاسی نظام میں موروثیت 56 ہجری میں داخل ہوئی۔ اس کے بعد 1400 سال سے یہ چٹائی بچھا کر بیٹھی ہے، مجال ہے جو اسے اٹھانے کی کوشش کی گی ہو۔ اگر کچھ لوگوں کے دعوؤں کے مطابق کی جانے والی کوششوں کو ہم استثنیٰ دے بھی دیں تب بھی وہ کوششیں اپنے مقصد بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکیں اور وہ بہت شروع کے دور میں ہوئیں ، اس کے بعد پچھلے 1400 سال سے صرف موروثی بنیادوں پر حکم رانی یا جانشینی کے فیصلے ہوئے۔

ہمارے نہایت محترم مظہر عباس صاحب نے ایک موقع پر کہا کہ ”ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت کو لانا ہو گا جب آپ فیصلوں کو اپنے خاندان تک محدود کر دیتے تو اس سے جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے“ ۔ اس سے ملتی جلتی بات محترم سلیم صافی صاحب بھی کر چکے، محترم حامد میر صاحب نے بھی کی۔ اس بات سے کس کو اختلاف ہے ، یہ بات تو سب مانتے ہیں ، یہ تو ایک اصول یا قاعدہ ہے کہ جمہوریت میں چونکہ عوامی حکومت ہوتی اس لیے قوت و اختیار بھی انہی کے پاس ہونا چاہیے۔

اب اس قاعدہ کی مدد سے اپنے موروثیت کا خاتمہ کرنا ہے تو یہ کیسے ہو گا؟ اس طرف کوئی آتا نہیں۔ جو چیز پچھلے 1400 سال سے ہم مسلمان ختم نہ کر سکے ، اسے آج عمران خان، میاں نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، محمود خان اچکزئی یا اختر مینگل کیسے ختم کرسکیں گے؟ یہ لوگ تو سیاسی سمجھ بوجھ میں پہلے والوں کا سایہ بھی نہیں بن سکتے۔

اس لیے تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا مشورہ یہی ہو گا کہ اسے برداشت کریں لیکن اگر آپ اس پہلے طبقہ سے ہیں جو اسے گناہ کبیرہ کی طرح سمجھتا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ ہمیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتائیں اور طریقہ بتاتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ آپ ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں پیری مریدی بھی موروثیت پر چل رہی ہے۔ جہاں نبی پاک ﷺ کی ناموس کے تحفظ کے نام پر بننے والی جماعت کی سربراہی بھی موروثی بنیاد پر دی جاتی ہے۔

ہم سب کے مدیران، لکھاریوں اور قارئین کو بھی میں دعوت فکر دیتا ہوں کہ وہ بھی اس مسئلہ کو دیکھیں کہ 1400 سالہ تاریخ سے مسلمانوں کے سیاسی نظام میں قائم موروثیت کا خاتمہ پاکستان کے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیسے ممکن ہے؟

نوٹ: خاکسار بھی موروثیت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا لیکن خاکسار چاہے جو بھی سمجھے سیاست زمینی حقائق پر چلتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).