ٹرانسجینڈر کمیونٹی: کیا پاکستان میں خواجہ سراؤں کو محض تشہیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟


ریم شریف
’یہ جو کارڈ میں نے پہنا ہوا ہے نا، اِس میں بہت طاقت ہے‘ ریم نے اپنے گلے میں پہنے آفس کارڈ کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

’لیکن اگر میں اس کارڈ کے بغیر چوک پر ٹیکسی روکنے کے لیے کھڑی ہوتی ہوں، تو میں دوبارہ سے وہی ٹرانسجینڈر بن جاؤں گی۔ دیکھنے والے فوراً یہ خیال کریں گے کہ یہ ٹرانسجینڈر یا تو سیکس ورکر ہے یا بھیک مانگ رہی ہے یا پھر کسی شادی کے فنکشن میں ناچنے کے لیے جانے والی ہے۔۔۔ سوچ وہی ہے۔‘

ریم شریف کو حال ہی میں راولپنڈی پولیس کے تحت چلنے والے پروگرام ’تحفظ‘ میں بطور ’وِکٹم سپورٹ آفیسر‘ تعینات کیا گیا ہے۔ اُن کے اس عہدے پر تقرری کے بعد سے ان کو مبارکباد پیش کی جا رہی ہے جبکہ اخباروں اور میڈیا چینلز میں اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔

ریم پاکستان میں پہلی ایسی خواجہ سرا نہیں ہے جنھیں اس انداز میں سامنے لایا گیا اور ان کی تشہیر کی گئی۔ اس سے قبل پاکستان کی پہلی خواجہ سرا اینکر پرسن، پہلی خواجہ سرا ماڈل یا اقوامِ متحدہ کے کسی پروگرام میں کام کرنے والی پہلی خواجہ سرا افسر سامنے آئیں تھیں اور اسی انداز میں میڈیا اور سماجی حلقوں میں ان کی پزیرائی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’اب ہم انسانوں کی فہرست میں شامل ہورہے ہیں‘

’جو خواب دیکھا تھا اس کی پہلی سیڑھی چڑھ گئی ہوں‘

وہ خواب جس نے ایک خواجہ سرا کو دینی مدرسہ بنانے کی راہ دکھائی

لیکن پھر چند روز یا چند ماہ گزرنے کے بعد کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ ’پہلی خواجہ سرا اینکر پرسن‘ کو چھ ماہ بعد ہی نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے پراجیکٹ میں کام کرنے والی ’پہلی خواجہ سرا افسر‘ کے کانٹریکٹ (عارضی نوکری کا معاہدہ) میں ایک سال بعد توسیع نہیں کی گئی تھی۔

تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ٹرانسجینڈرز کو محض تشہیری مقاصد یا کسی ادارے کا سافٹ امیج ابھارنے کے لیے وقتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے؟

تشہیر اور استحصال ہے

ریم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’استحصال تو ہے۔ اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔ ایک ٹرانسجینڈر کو نام اور شہرت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، میں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایک ٹرانسجینڈر کتنا بھی خود مختار ہو جائے یا اسے خود مختار بنا کر پیش کر دیا جائے، اُس کو مشکلات کا سامنا پھر بھی رہتا ہے۔ لوگ آپ کے بارے میں ایک مخصوص قسم کی رائے رکھتے ہیں جس کے تحت وہ ٹرانسجینڈر یا ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس لیے ایک خواجہ سرا کا پڑھا لکھا ہونا بھی کام نہیں آتا۔‘

نایاب علی جو کہ سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے بھی کام کرتی ہیں، اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’اگر دو سال پیچھے جائیں تو ایک نیوز چینل میں ایک اینکر پرسن کو رکھا گیا تھا۔ پھر کچھ ماہ گزرنے کے بعد اسے نکال دیا گیا اور اب بوجود کوشش کے کوئی میڈیا چینل انھیں رکھنے پر راضی نہیں ہو رہا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ وہ دوبارہ بزنس میں چلی گئی ہے۔۔۔ ان کا صرف نام استعمال کیا گیا۔ وہ چینل جس کو کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا اس کی قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں تو واہ واہ ہو گئی لیکن اس کے نتیجے میں اس خواجہ سرا کو کیا ملا؟‘

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ اور پلاننگ کے شعبے سے منسلک ایک خواجہ سرا کی تشہیر بھی اسی طرز پر کی گئی تھی۔ ’علیشا شیرازی کو ایک سال عہدے پر رکھا گیا پھر کانٹریکٹ نہیں دیا گیا۔ وہ آج بھی نوکری کی تلاش میں ہیں۔‘

خواجہ سرا افراد کے حقوق پر کام کرنے والے کارکن بتاتے ہیں کہ انھیں سرکاری نوکری پر بہت کم یا پھر رکھا ہی نہیں جاتا اور غیر سرکاری اداروں میں کانٹریکٹ پر ہونے کا مسئلہ یہ بنتا ہے کہ انھیں کسی بھی وقت بغیر کسی اعلان کے نکال دیا جاتا ہے۔

نوکریوں پر خواتین کو رکھ لیں

خواجہ سرا افراد کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔

اے ایس پی سول لائنز بینش فاطمہ کا ریم شریف کی اس پوسٹ پر تعیناتی میں ایک اہم کردار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ریم کو ’تحفظ‘ پراجیکٹ کا حصہ بنانے کے دوران ان کی آفس کے اندر حفاظت کے لیے بھی اقدامات اٹھانے پڑے ہیں۔

بینش فاطمہ نے بتایا کہ ’آپ کے ملک کے تمام ادارے آپ کے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب ریم کو خواجہ سرا افراد کے خلاف ہونے والے جرائم کی شکایت درج کرنے کے لیے رکھنے کی بات کی گئی تو ہمیں ادارے کے اندر بہت اختلافات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم سے سوال کیا گیا کہ یہ کیسے ہو گا۔ لیکن ہمارے سینیئر افسران خاص طور سے پولیس کے اعلی افسران اس بارے میں ڈٹ گئے کہ ہمیں یہ قدم اٹھانا ہے، اور ریم کو رکھنا ہے۔‘

بینش نے کہا کہ بعد میں انھیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کے لیے کہ ریم کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی نہ ہو، ان کی بیٹھنے کی جگہ پر کیمرہ اور آڈیو ریکارڈنگ کے آلات لگانے پڑے۔

انھوں نے بتایا کہ عمومی طور پر پاکستانی محکموں میں خواجہ سرا کو کسی آسامی پر رکھنے کے بجائے کسی خاتون امیدوار کو ترجیح دے دی جاتی ہے۔

تعلیم یافتہ خواجہ سرا نہیں چاہیے

اگر پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تاریخ دیکھیں تو ایسا تاثر ملتا ہے جیسے چند مخصوص کاموں جیسا کہ ناچنے گانے اور بھیک مانگنے کے علاوہ انھیں کسی اور کام کے لائق نہیں سمجھا جاتا۔

مارچ 2018 میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے ایک خواجہ سرا رحیم داد خان کی درخواست پر صوبائی سیکریٹری برائے سیکنڈری ایجوکیشن کو طلب کیا تھا۔ درخواست گزار نے عدالت کو لکھا تھا کہ کس طرح آسامیوں کے لیے شائع ہونے والے اشتہارات میں خواجہ سراؤں کا نام شامل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اکثر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود خواجہ سراؤں کو ان شعبوں کے لیے نہیں چُنا جاتا۔

اُسی سال، یعنی 2018 میں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم جاری کیا کہ دو خواجہ سراؤں کو سپریم کورٹ میں نوکری دی جائے گی۔ لیکن اس کے بعد اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئیں۔

جہاں تک مختلف شعبوں میں خواجہ سراؤں کے لیے جگہ بنانے کی بات ہے تو اس کے بارے میں خیبر پختونخواہ کی تنظیم ٹرانس ایکشن سے منسلک تیمور کمال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود خواجہ سراؤں کو دو فیصد کوٹہ پر نہیں رکھا جاتا۔ مخصوص خواجہ سراؤں کو نوکری پر رکھ لیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ اس نوکری پر ہیں یا نہیں۔‘

حکومتی دستاویزات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف دو خواجہ سرا اس وقت سرکاری نوکریوں پر فائز ہیں۔ ایک آبپاشی کے محکمے میں اور دوسرا ٹاؤن میونسپل اتھارٹی میں۔

لیکن تیمور نے بتایا کہ ’ان میں سے ایک نے حال ہی میں نوکری چھوڑ دی ہے کیونکہ اسے پچھلے آٹھ سال سے گریڈ فور پر رکھا ہوا تھا۔ اور اسے ترقی نہیں دی جا رہی تھی۔ اشتہاروں میں معذور افراد تک کے کوٹے کے تحت نام ہوتا ہے۔ لیکن خواجہ سرا کا نام کسی کھاتے میں نہیں آتا۔‘

مسائل کا انبار اور امتیازی سلوک

سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 10313 ہے۔ لیکن اس کمیونٹی کے بڑے ان اعداد و شمار کو نہیں مانتے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے تحت تشکیل دی گئی ایک رپورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی رِٹ پٹیشن میں خواجہ سرا برادری کی تعداد 18 لاکھ بتائی گئی ہے۔

نایاب نے کہا کہ ’ہمارے اعداد و شمار تک صحیح نہیں بتائے جاتے تاکہ یہ نہ ہو ہمارے مسائل کو سننا یا ان کا حل نکالنا پڑ جائے۔‘

حل نکالنے کی جہاں تک بات ہے تو سنہ 2018 کے آواخر میں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں خواجہ سرا افراد کے لیے دو کمرے مختص کیے گئے۔ اس سے پہلے کئی بار خواجہ سرا افراد کی ہسپتالوں کے وارڈ میں کمرہ نہ ملنے کی صورت میں موت واقع ہونے کی خبریں گردش کرتی رہتی تھیں۔

جب پمز ہسپتال میں دو کمرے مختص کیے گئے تو اس دوران بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بلا کر بتایا گیا کہ ایسا ’پہلی‘ بار ہونے جا رہا ہے کہ خواجہ سرا افراد کا علیحدہ کمرہ ہو گا۔ اور ان کو ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

لیکن پتا کرنے پر ہسپتال کی انتظامیہ میں موجود ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وہ کمرہ ایسے ہی رکھا ہے۔ کیونکہ خواجہ سرا قانونی کارروائی اور امتیازی سلوک کے خوف سے یہاں نہیں آتے۔‘

ریم جس دفتر میں کام کرتی ہیں وہاں سے انھیں فیلڈ میں شکایات درج کرنے کے لیے نہیں بھیجا جاتا۔ بلکہ ان کے پاس شکایات درج کرنے کے لیے خواجہ سرا برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلایا جاتا ہے۔

’یہ تو ایک پراجیکٹ ہے جس پر راولپنڈی پولیس خود سے کام کر رہی ہے۔ اگر دیگر ادارے بھی ایسا کریں اور معاشی مواقع فراہم کریں تو ہماری برادری بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ ہمارے بڑوں نے بھیک مانگی اور سیکس ورک کیا تو انھوں نے ہمیں بھی یہی بتایا۔ آگے ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو، لیکن اس میں ابھی بہت وقت لگے گا کیونکہ سوچ بدلنا آسان کام نہیں ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp