براڈ شیٹ کیا سچ کیا جھوٹ


آج کل ہمارے میڈیا میں براڈ شیٹ کے سی ای او کاوے موسوی کے انٹرویو کے بعد مختلف ٹی وی چینل اس کو مختلف انداز سے پیش کر رہے ہیں، کوئی اس کو اپوزیشن کے خلاف چارج شیٹ بتا رہا ہے تو کوئی اس کو حکومت کے لئے مسائل میں اضافہ قرار دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ دوست اس کو نیب اور اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے جوش میں اس کو پانامہ ٹو کا لقب دیا جب کہ میاں نواز شریف نے اسے اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ براڈ شیٹ اور نیب کے درمیان معاہدہ کیا ہوا تھا اور اس معاہدے کے بنیادی نکات کیا تھے؟ 2000 میں ہماری حکومت یہ سمجھتی ہیں کہ ملک میں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد نے کرپشن کی ہے، ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر بھجوایا گیا ہے، اس کے لیے حکومت چاہتی ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس آ جائے جس کے لیے ملک سے باہر ایک ایسی کمپنی کی ضرورت ہو گی جو ملک سے باہر ان شخصیات کے بارے انکوائری کرے اور ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس پاکستان لانے میں مدد کرے۔ ایک ایسی کمپنی جو ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی نشاندہی کرے اور اس کام کے حوالے سے اس کا وسیع تجربہ ہو۔

چنانچہ 19 جون 2000 کو اس حوالے سے ایک اگریمنٹ بنتا ہے جس کی منظوری 20 جون اگلے ہی دن براڈ شیٹ نامی کمپنی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کمپنی کے ساتھ معاہدے کے رو سے پاکستان کی لوٹی ہوئی جو بھی رقم پاکستان واپس ہو گی، اس کا 80 فی صد نیب کو اور 20 فی صد براڈ شیٹ کمپنی کو دیا جائے گا۔

اب آتے ہیں براڈ شیٹ کمپنی کی حقیقت کی طرف، یہ پانامہ آف شور کی دو کمپنیوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ یہ کمپنی مئی 2000 میں بنتی ہے، مطلب نیب اس کمپنی کے ساتھ جب معاہدہ کر رہی تھی اس وقت کمپنی کو بنے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ براڈ شیٹ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا اس میں کچھ ایسی شقیں ڈالی گئیں جس کا فائدہ قانونی اور مالی طور پر براڈ شیٹ کو پہنچایا گیا اور ملک کے مفادات کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ 2003 میں یہ معاہدہ توڑ دیا گیا جس کے خلاف فرم نے ثالثی عدالت میں نیب کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ مشرف کو کچھ ایسے لوگوں کی اپنی حکومت میں ضرورت تھی جن کے نام بھی براڈ شیٹ کو دی گئی لسٹ میں شامل تھے۔

اب مشرف کی دلچسپی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بجائے اپنی حکومت کو مزید مضبوط کرنے میں تھی۔ 2005 میں براڈ شیٹ کمپنی ڈیفالٹر قرار پائی۔ 2008 میں جیری جیم نامی شخص پاکستان آتا ہے اور براڈ شیٹ کی مد میں ڈیڑھ ملین ڈالر لے جاتا ہے، یہ سب کس قانون کے تحت ہوتا ہے، اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ غلط فریق سے تصفیے کا معاہدہ کر کے ڈیڑھ ملین ڈالرز ادا کیے گئے۔ جیری جیم کے ڈیڑھ ملین ڈالر وصول کرنے کے بعد ایرانی نژاد برطانیہ کا شہری موسوی کیس دائر کرتا ہے جس کا فیصلہ موسوی کے حق میں 2016 میں آتا ہے۔

2018 میں 22 ملین جرمانے کا حتمی فیصلہ آتا ہے۔ حکومت پاکستان اور نیب اس فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیتی جس کے بعد اب تقریباً 65 ملین کا فیصلہ آتا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی کی مالک پانامہ اف شور کی دو کمپنیاں ہیں۔ موسوی کا نام کہیں بھی ایگریمنٹ میں نہیں آتا۔ نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان معاہدے میں بھی کہیں موسوی کا نام، ذکر یا دستخط موجود نہیں۔ براڈ شیٹ نے اگریمنٹ کے تحت کوئی بھی لوٹی ہوئی رقم واپس نہیں دلوائی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تمام صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ ملکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ کیسے ہم اس طرح سے برباد کر سکتے ہیں؟

اب آتے ہیں موسوی کے میڈیا کو دیے گئے بیانات کی طرف تو موسوی نے مختلف موقع پر متضاد بیانات دیے۔ موسوی نے ایک انٹرویو جس میں اس نے انکشاف کیا تھا کہ ایک پاکستانی سیاسی شخصیت کا ایک ارب ڈالر کا مشکوک اکاؤنٹ سنگاپور کے بینک میں موجود ہے۔ جس کے بعد پاکستانی میڈیا میں بھی اس حوالے سے باز گشت سنائی گئی جبکہ 13 جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ صرف ایک پاکستانی شخص کے اکاؤنٹ میں ایک ارب ڈالر موجود ہیں۔

ایک ارب ڈالر کی موجودگی کا دعویٰ بغیر ثبوت کے اس لیے بھی حیران کن ہے کہ سوئٹزر لینڈ سینٹرل بینک اور سوئس نیشنل بینک کی 2018 میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانیوں کی سوئس بنکوں میں مجموعی رقم 73 کروڑ 80 لاکھ فرینک ہیں جو کہ تقریباً 83 کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ موسوی کے پچھلے کچھ دنوں کے بیانات میں بھی کافی تضادات پائے جائے ہیں۔ دوسری جانب موسوی کے بیرسٹر ظفر علی کے ساتھ تعلقات، جن کے ایک حاضر سروس جنرل کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، یہ پہلو بھی کئی سوال جنم دیتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے باوجود کاوے موسوی نے حال ہی میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سیاسی شخصیات کے بیرون ملک اثاثہ جات کا سراغ لگانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے حوالے سے موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت جاری ہے۔

براڈ شیٹ کا معاملہ پاکستان میں احتساب کا جو طریقہ کار ہے اس پر سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں جو سیاسی انجینئرنگ اور ہدفی احتساب ہو رہا ہے، یہ فیصلہ بھی اس کا شاخسانہ ہے۔ یہ معاملہ احتساب کا تھا نہ ہے۔ اس کیس کے فیصلے کو سیاسی ترازو میں تولا جائے گا اور اس کے فیصلے کے گمبھیر سیاسی مضمرات ہوں گے جو بہرحال ملک کے حق میں اچھے نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).