لاہور کو کس کی نظر لگی؟


ملک کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ جانے اب اس میں قصور وار کون ہے البتہ اس کا نقصان ہم سب کو پہنچ رہا ہے۔ لاہور کا شہر تاریخی شہروں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ باغوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔

لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اپنی ثقافت، رہن سہن اور لوگوں کے ملنسار ہونے کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ لاہوری کھانے پینے کا انتہائی شوق رکھتے ہیں اور موقع کی مناسبت سے پکوان کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

یہ شہر سیاحوں کے لیے خاص توجہ کا مرکز رہتا ہے کیونکہ بادشاہی مسجد، مینار پاکستان، مقبرہ جہانگیر، شاہی قلعہ، وزیر خان مسجد، گرینڈ بحریہ ٹاؤن مسجد، واہگہ بارڈر، اس کے علاوہ کئی ایسے مقامات ہیں جن کو دیکھے بنا رہا نہیں جا سکتا۔

لاہوریوں کو زندہ دلان لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں یہاں بسنے والوں کی زندہ دلی اور مہمان نوازی کا بڑا کردار ہے۔ جو ایک بار اس شہر میں کچھ وقت گزار لیتا ہے تو اپنا دل یہیں چھوڑ جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک اس شہر کو پاکستان کا پیرس بھی کہا جاتا تھا جس کے پیچھے اس کے خوبصورت باغوں کے علاوہ پرشکوہ پل اور فلائی اوورز کا بھی کمال تھا جو رستوں کو نہ صرف خوبصورت بناتے تھے بلکہ سفر کی مشکلات کو بھی آسان کرتے تھے۔ ہر طرف صفائی تھی لیکن کہتے ہیں ناں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کب بدل جائے کیا خبر!

پل اور فلائی اوورز تو اب بھی موجود ہیں لیکن صفائی ستھرائی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اب یہ پیرس گندگی کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ فیصل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، ڈیفینس جسے بڑے اور پوش علاقوں میں بھی صورت حال گمبھیر نظر آتی ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر اور ان پر مکھیاں بھنبھناتی ہیں۔ فضا میں تعفن پھیلتا جا رہا ہے۔ اگر بارش ہو جائے تو صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔

پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ اب فضا بھی آلودہ ہو گئی ہے۔ فضائی آلودگی میں بھی لاہور کسی طرح پیچھے نہیں اب مزید صورتحال بگڑتی جا رہی ہے کیونکہ جراثیم بھی بڑھتے جا رہے ہیں نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن کا اب تک کوئی علاج ممکن نہیں۔

اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ ہے ہمارا رویہ، ہماری بے بسی اور ہماری اپنی ذمہ داریوں سے نظریں چرانے کی عادت۔ پہلے لاہور کے قریبی گاؤں یا دور دراز کے علاقوں اور اردگرد کے چھوٹے شہروں سے لوگ چڑیا گھر اور سفاری پارک آتے تھے، جانوروں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنا پورا دن بھرپور طریقے سے گزارتے تھے لیکن اب حالات اس قدر بدل گئے ہیں کہ جانور بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

سفاری پارک کے شیر مشہور تھے لیکن اب بے چاروں کی حالت زار دیکھ کر دل بھر آیا۔ ان کی صحت مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے۔ انتہائی کمزور اور لاغر ہوتے جا رہے ہیں۔ جانوروں کے پنجروں کی جالی کے قریب ہوں تو جانور آنکھوں میں امید لے کر دوڑے آتے ہیں کہ شاید ان کو کھانے کو کچھ مل جائے گا۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ انسان تو انسان جانور بھی بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔ اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟

جانوروں کے لئے تازہ گھاس نہ ہونے کے برابر ہے اور خود رو جھاڑیاں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں حتٰی کہ پنجروں کے اندر، باہر اور عام چلنے کی شاہراہ پر بھی جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔ اجڑے ہوئے جنگل کا سماں پیش کرتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا دور دور تک کوئی انتظام نہیں۔ نہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔

سفاری پارک کی انتظامیہ کے مطابق ان کو جانوروں کی خوراک کا خرچہ خود اٹھانا پڑتا ہے اور کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران سیاحوں کی آمد و رفت نہ ہونے کی وجہ سے اخراجات پورے کرنے میں دقت پیش آئی۔ جس کی وجہ سے کچھ شیر ان کو فروخت بھی کرنے پڑے۔ ایسے میں کیا حکومت کو ان محکموں کی مدد نہیں کرنی چاہیے تھی؟

لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ اس دل میں بہت سارے سوراخ ہو گئے ہیں اور اس نے اپنی روایتی آب و تاب کے ساتھ دھڑکنا فی الحال چھوڑ دیا ہے۔

وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور لاہور کی مقامی انتظامیہ کو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دینی چاہیے تاکہ عظیم شہر کے حسن کو برقرار رکھا جا سکے۔ یہ ایک تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز ہے لہٰذا اس کی صفائی اورخوبصورتی کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہمیں لاہور اور پاکستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنانا چاہیے تبھی تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن رہے گا اور لوگوں کو روزگار ملتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).