اندرون شہر لاہور کے بازار


اکبری منڈی اناج، مسالہ جات، جڑی بوٹی اور کیمیکلز کی ہول سیل مارکیٹ ہے۔ یہ ایشیا کی بڑی اناج اور مسالہ جات کی مارکیٹ ہے۔ اس منڈی کا نام مغل بادشاہ، اکبر کے نام پر رکھا گیا اور اس منڈی کی ابتداء اکبر کے زمانہ میں ہوئی۔ اس لیے اس منڈی کو قدیم بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ کسیرہ بازار لوہا، تانبا، پیتل اور سٹیل کے برتنوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس بازار کی خاصیت نایاب اور پرانے برتن اور سجاوٹ کی اشیاء ہیں۔

کسیرہ بازار تقریباً 125 سال پہلے بنا اور یہاں تقریباً 100 دکانیں ہیں۔ وان مارکیٹ کا پرانا نام بازار وان وٹاں ہے۔ یہ بازار تقریباً 100 سال پرانا ہے۔ اس بازار کی خاصیت یہاں فروخت ہونے والا پلاسٹک اور سوتی بان، سیبہ اور روایتی چارپائیاں اور رنگیلے پیڑھے ہیں۔ یہ مارکیٹ ایشیا کی سب سے بڑی ہول سیل کپڑے کی مارکیٹ ہے۔ اس مارکیٹ سے ایران، افغانستان، چائنہ اور انڈیا کپڑا برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ مارکیٹ 1950ء کی دہائی میں لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان نے قائم کی۔

اس مارکیٹ میں تقریباً 12000 دکانیں ہیں۔ پاکستان کلاتھ مارکیٹ کپڑے کی مشہور مارکیٹ ہے۔ جہاں سے پورے پاکستان میں کپڑا خرید و فروخت کے لئے لے جایا جاتا ہے۔ یہ مارکیٹ تقریباً 35 سال پرانی ہے اور اس میں 1300 دکانیں ہیں۔

یہ سونے کی مارکیٹ ہے جو سوہا بازار کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ یہ لاہور شہر کی سب سے بڑی سونے کی مارکیٹ سمجھی جاتی ہے۔ یہ بازار لوہاری دروازہ اور شاہ عالم دروازے کے درمیان واقع ہے۔ پا کستان بننے سے پہلے بھی یہاں قیمتی پتھروں کے تاجر کاروبار کیا کرتے تھے۔لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ کاروبار یہاں سے ختم ہو گیا۔

پتھروں کا موجودہ بازار 30 سال پہلے بنا ہے اور تقریباً 55 دکانیں یہاں موجود ہیں۔ یہ سب فرشی دکانیں ہیں۔ موتی بازار اندرون شہر لاہور کی مشہور جوتوں کی مارکیٹ ہے۔ یہ ہول سیل مارکیٹ ہے جہاں سے جوتے پورے ملک اور دوسرے ممالک میں بھی سپلائی کیے جاتے ہیں۔ یہ بازار تقر یباً 100 سال پرانا ہے۔ سکھوں کے زمانے میں اس علاقہ کو بازار حسن کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ وقت کے ساتھ شاہی محلہ (قلعہ کے عقب میں) منتقل ہو گیا اور اس جگہ جوتوں کی مارکیٹ بن گئی۔

اس وقت اس مارکیٹ میں 1200 کے قریب دکانیں ہیں۔ شاہی قلعہ کے مستی دروازہ کے سامنے اور موتی بازار کے اختتام پر رم مارکیٹ موجود ہے۔ یہ مارکیٹ قدرے نئی ہے اور تقریباً 35 سال پہلے بنی ہے۔ یہاں گاڑیوں کے رم کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس مارکیٹ میں 60 کے قریب دکانیں ہیں۔

شاہ عالم مارکیٹ پا کستان کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے ، شاہ عالم مارکیٹ الیکٹرانکس، کاسمیٹکس، ہینڈی کرافٹس، نایاب اشیاء، اسٹیشنری، کراکری، کھیلوں کے سامان، جیولری اور ضروریات زندگی کے دیگر سامان کے لئے مشہور ہے۔اس مارکیٹ میں اندازاً 1200 کے قریب دکانیں ہیں۔

شاہ عالم مار کیٹ سے ضروریات زندگی کی اشیاء تمام ملک میں اور ہمسایہ ممالک کو درآمد کی جاتیں ہیں۔ عینک مارکیٹ شاہ عالم دروازہ میں واقع ہے۔ یہ مارکیٹ 1970 میں قائم ہوئی۔ اس مارکیٹ میں 120 کے قریب دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ اردگرد کے علاقہ میں درجنوں عینک فیکٹریاں اور گودام بھی موجود ہیں۔ پرندوں کی مارکیٹ بھاٹی دروازہ میں واقع ہے۔ یہ مارکیٹ زیادہ پرانی نہیں ہے۔

یہ مارکیٹ تقریباً 15 سال پہلے بنی ہے اور یہاں 38 کے قریب دکانیں ہیں۔ اس مارکیٹ میں کبوتر، طوطے، تیتر، بیٹر کی مختلف نسلیں دستیاب ہیں۔

چوڑیاں کا بازار پانی والا تالاب کے قریب موجود ہے۔ یہ چوڑیوں کی ہول سیل مارکیٹ ہے جہاں سے مخلتف شہروں اور بازاروں کو چوڑیاں بھیجی جاتی ہیں۔ یہ بازار 1950ء میں قائم ہوا۔ مقامی لوگوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے اس جگہ ہندوؤں کے مندر ہوا کرتے تھے جنہیں گرا کر یہاں بازار بنایا گیا۔

اس بازار میں پچاس سے زائد چوڑیوں کی دکانیں ہیں۔ پاپڑ منڈی بازار شاہ عالم اور لوہاری دروازہ کے درمیان موجود ہے۔ یہ بازار جڑی بویٹوں، مربہ جات، پر فیومز اور پلاسٹک کی بوتلوں کا بازار ہے۔ اس بازار میں تقریباً 250 کے قریب دکانیں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ بازار پاکستان بننے سے پہلے موجود ہے۔

شیشہ موتی بازار رنگ محل کے قریب، گمٹی بازار کے ساتھ واقع ہے۔ ایک بازار تک یہ بازار گوالوں اور بھینس، گائے رکھنے والوں کے لئے مشور تھا۔ پھر اس جگہ شیشہ موتی بازار قائم ہوا۔ یہ بازار جوتے بنانے کے سامان (ریگزین، سجاوٹی پتھر اور جیولری) کے لئے جانا جاتا ہے۔ اس بازار میں 40 کے قریب دکانیں ہیں۔

اندرون شہر میں دو مچھلی بازار ہیں۔ ایک دہلی دروازہ اور دوسرا موری دروازہ میں ہیں۔ موری بازار والی مچھلی منڈی 1969ء میں قائم ہوئی اور تقریباً 45 سال سے کام کر رہی ہے۔ اس بازار میں 40 کے قریب دکانیں ہیں۔ دہلی دروازہ کی مچھلی منڈی 13 سال پرانی ہے یہاں 35 دکانیں ہیں۔ لاہور کے مشہور ریستوران اور دوسرے شہروں کو اس منڈی سے مچھلی بھیجی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).