نئے اور پرانے پردیسی کا مکالمہ


پرانا پردیسی: آپ کون؟
نیا پردیسی: میں زید۔
پرانا پردسی: ملک سے باہر کب آئے؟
نیا پردیسی: یہی کوئی سال بھر ہوا۔
پرانا پردیسی: اچھا اچھا، وہاں کیا کرتے تھے؟
نیا پردیسی: جی میں بینک میں اسسٹنٹ مینیجر تھا۔
پرانا پردیسی: ارے واہ! یہاں کیا مشغلہ ہے؟
نیا پردیسی: جی بس کچھ خاص نہیں، محنت مزدوری کر لیتے۔
پرانا پردیسی: اوہ، تو ملک کیوں چھوڑا؟
نیا پردیسی: بس جی سوچا تھا بچوں کے لیے کچھ کر پاؤں۔
پرانا پردیسی: تو کر پائے؟
نیا پردیسی: جی بس گزر بسر ہو جاتی۔
پرانا پردیسی: وہاں نہیں ہوتی تھی؟
نیا پردیسی: جی ہو تو وہاں بھی جاتی تھی۔
پرانا پردیسی: تو ملک کیوں چھوڑا؟
نیا پردیسی: لوگ کہتے تھے باہر چلے جائیں تو سب اچھا ہو جاتا ہے ۔
پرانا پردیسی: کون لوگ؟
نیا پردیسی: جو اپنے ملک میں رہتے ہیں۔
پرانا پردیسی: تو وہ کیوں نہیں آئے؟
نیا پردیسی: پتا نہیں، انہیں موقع نہیں ملا ہو گا۔
پرانا پردیسی: آپ کو کیسے ملا؟
نیا پردیسی: جی مکان بیچا، دکان بیچی، گاڑی بیچی۔
پرانا پردیسی: تو یہاں لے لیا؟ مکان، دکان یا گاڑی؟
نیا پردیسی : ارے کہاں، وہ سب تو آنے پر لگ گیا۔
پرانا پردیسی: سب کچھ؟
نیا پردیسی: جی ایجنٹ کو دیا، حکومت کو دیا، ٹکٹیں خریدیں، پھر یہاں آ کر مالک مکان کو دیا۔
پرانا پردیسی: ہممم، پھر تو کچھ نہیں بچا ہو گا؟
نیا پردیسی: نہیں کچھ بچا تھا، مگر وہ بھی نوکری ملنے تک لگ گیا۔
پرانا پردیسی: کہاں رہتے ہیں؟
نیا پردیسی: ایک مکان کے تہ خانے میں۔
پرانا پردیسی: دم نہیں گھٹتا؟
نیا پردیسی: جی اپنے گھر کی کھڑکیاں اور بالکونی یاد آتے ہیں۔
پرانا پردیسی: اور کچھ بھی یاد آتا ہے؟
نیا پردیسی: جی۔ ماں یاد آتی ہے۔ بہن بھائی بھی۔ دوست بھی یاد آتے ہیں، اپنا شہر اور اپنا کام۔
پرانا پردیسی: یاد تو مجھے بھی آتی تھی۔
نیا پردیسی: اب نہیں آتی؟
پرانا پردیسی: نہیں میں نے دفنا دیں۔
نیا پردیسی : اچھا آپ کب آئے؟
پرانا پردیسی : مجھے تو پندرہ سال ہو گئے۔
نیا پردیسی: اچھا اچھا، آپ کیا کرتے ہیں؟

پرانا پردیسی: بیک ہوم تو ڈاکٹر تھا، یہاں پہلے تو مکینک کا کام کیا، اب ماشاءاللہ اپنی ورکشاپ ہے، تم بھی چھوڑو یہ نوکری اپنا کام دھندا کرو۔

نیا پردیسی: مگر آپ تو۔ آپ نے یہاں کوشش نہیں کی ڈاکٹر بنے رہنے کی؟
پرانا پردیسی: کی تھی مگر راستہ بہت لمبا تھا، اور ذمہ داریاں زیادہ تھیں۔
نیا پردیسی: اہووو، اچھا، یہاں آپ کے کام میں پیسے اچھے بن جاتے ہیں؟
پرانا پردیسی: تین گاڑیاں ہیں، اپنا گھر ہے، قسطوں پر لیا تھا، دس سال کی دے دی اب بس پندرہ سال اور۔
نیا پردیسی: آپ بھی بچوں کا سوچ کر آئے ہوں گے، چلیں ان کا اپنا گھر تو ہوا۔
پرانا پردیسی: ہاں گھر تو ہے، مگر بچے ساتھ نہیں رہتے۔ کہتے ہیں، اپنا خود کریں گے۔
نیا پردیسی: اوہو۔ یہاں بچے ساتھ نہیں رہتے؟
پرانا پردیسی: اچھا چلیے چھو ڑیے، کیا اداس باتوں میں الجھ گئے، وہ ایجینٹ کا نمبر ہو گا؟
دوسرا پردیسی: جی ہے تو، آپ کو کیا کام۔

پرانا پردیسی: میری خالہ کا بیٹا ہے، وہ بھی انجینئر ہے کہیں چھوٹی موٹی نوکری بھی کرتا ہے۔ اسے سمجھایا ہے کہ یہاں آ جاؤ، وہاں کیا رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).