میں نے خود کو ریسرچ میں کورونا ویکسین کیوں نہیں لگوا لی؟


پیر کا دن کورونا کی ویکسین کے دوسرے ٹیکے کے لیے نہایت غلط دن تھا۔ لنچ بریک میں لِن انسٹیٹیوٹ (Lynn Institute) گئی اور انہوں نے مجھے یہ ٹیکا لگایا۔ سارا دن ٹھیک سے گزرا۔ رات کے دس بجے مجھے کپکپی طاری ہونا شروع ہوئی۔ میں نے سوچا کہ صبح تک ٹھیک ہو جائے گی لیکن آدھی رات میں آنکھ کھلی۔ مجھے شدید سردی لگ رہی تھی اور میں ایک سوکھے پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔ سخت سر میں درد اور بخار ہو گیا تھا۔ نہایت مشکل سے اتنی ہمت جمع کی کہ اٹھ کر پانی پی سکوں اور دوا کھاؤں۔

اتفاق سے گھر میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اگلے تین دن ہر چھ گھنٹے بخار اور سر درد کی دوا کھا کھا کر کلینک چلایا۔ اگر کوئی مریض زیادہ سوال کرتے تو میں کہتی کہ آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے، آپ یہ سوال اگلی دفعہ پوچھ لیں۔ اس لیے باقی سب سے یہی مشورہ ہے کہ جمعے کے دن دوسرا ٹیکہ لگوائیں تاکہ بیمار پڑ جانے پر چھٹی کے دن آرام کرسکیں۔ سب لوگوں کو اتنا شدید رد عمل بھی نہیں ہوتا۔

لن انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ (Lynn Institute of research ) کے ساتھ میرا تعلق کوئی سات آٹھ سال سے ہے۔ جس ریسرچ میں میں خود حصہ لینا چاہوں اس کے اوپر پرنسپل انویسٹی گیٹر (Principal Investigator) نہیں بن سکتی۔ یہی اصول ہیں۔ 2020 کے اگست میں فائزر کی کورونا ویکسین کے فیز تھری کلینکل ٹرائل چل رہے تھے۔ اس میں میں نے خود بھی ایک سبجیکٹ کے طور پر حصہ لیا اور میرے دونوں بچوں نے بھی۔

ان دونوں کی عمر چونکہ 18 سال سے زیادہ ہے وہ بھی اپنی رضامندی سے اس میں حصہ لے سکتے تھے۔ ابھی 18 سال سے کم عمر کے بچوں میں فیز تھری ٹرائل شروع نہیں ہوئے ہیں۔ کچھ مہینوں کے بعد فائزر کے پاس اتنا ڈیٹا جمع ہو گیا جس سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ ویکسین محفوظ اور کارآمد ہے۔ جب کسی نئی بیماری کے لیے پہلے سے کوئی دوا موجود نہ ہو تو اس کو پلاسیبو (Placebo) کے ساتھ ناپ سکتے ہیں لیکن جب یہ معلوم ہو جائے کہ یہ دوا کارآمد ہے تو پھر ایک ایسی بیماری کے سامنے جس میں افراد کی اموات تک ہو رہی ہوں، آدھے گروپ کو پلاسیبو دینا میڈیکل ایتھکس (Ethics and the concept of equipoise) کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے یہ کلینیکل ٹرائل دو سال کے بجائے چند مہینوں میں ہی ختم کر دیا گیا اور سارے حصہ لینے والے افراد کو بتا دیا گیا کہ ان کو اصلی ویکسین لگی تھی یا نمکین پانی کا ٹیکا لگا تھا۔

مجھے پلاسیبو ملا تھا اس لیے اصلی ویکسین کے ٹیکے بعد میں دیے گئے۔ دو کی جگہ چار ٹیکے بھی مجھے لگے اور وہ ناک میں کورونا کا ٹیسٹ بھی چار مرتبہ کروانا پڑا۔ یہ ناک والا ٹیسٹ سوئیوں سے بدتر محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ دماغ میں گھسا دیں گے۔ لیکن سائنس کے لیے کچھ بھی! مجھے کئی افراد نے کہا کہ آپ خود ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کام کرتی ہیں تو خود کو اصلی ویکسین کیوں نہیں لگوا لی؟ اس طرح ریسرچ نہیں ہوتی۔

ریسرچ کیسے کی جاتی ہے وہ ہر میدان میں ‌ مختلف ہے۔ کیمسٹری میں ‌ مختلف عناصر لیبارٹری میں ‌ ملا کر تجربے کیے جاتے ہیں۔ اناٹومی میں ‌ مردے کاٹ کر ان کے اندر دیکھا جاتا ہے، ہسٹالوجی میں ‌ مائکروسکوپ سے تفصیل دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ معلومات مشاہدے کا نتیجہ ہوتی ہے اور کچھ تجربے کا۔ قدیم زمانے کے افراد نے بھی دنیا کو جدید آلات کے بغیر بھی مشاہدے سے کافی اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔

اس میں کچھ جادو نہیں ہے۔ اگر ہم یہ جاننا چاہیں ‌ کہ ایک گاڑی کن چیزوں ‌ سے مل کر بنی ہے لیکن ہمارے پاس ایسے کوئی آلے نہ ہوں ‌ جن سے اس کے حصے الگ الگ کیے جائیں ‌ تو اس کو کیسے سیکھیں ‌؟ دو گاڑیاں ‌ نہایت تیزی سے چلا کر ایک دوسرے سے ٹکرائیں ‌ تو وہ پرزہ پرزہ ہو کر بکھر جائیں ‌ گی اور پھر ہم جان سکیں ‌ گے کہ وہ کن چیزوں ‌ سے بنی تھیں۔ پروٹان کو فزکس میں ‌ سمجھنے کے لیے اسی طریقے سے آپس میں ‌ ٹکرایا جاتا ہے۔

کلینکل ریسرچ کی بھی کئی شاخیں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ نئی دواؤں کے مریضوں ‌ پر تجربے کیسے کیے جاتے ہیں؟ یہ شعبہ کافی وسیع ہے اور اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج تک کے انسان ہمارے لئے جو بھی معلومات چھوڑ گئے ہیں ‌ ان کے اوپر اور بڑی عمارت بنانی ہے۔ ہم سے پہلے لوگوں ‌ نے غلطیاں کیں ‌ اور ہمیں ‌ ان غلطیوں ‌ سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ریسرچ کی دنیا میں ‌ بنائے ہوئے قوانین اور اصول اسی لیے ہیں ‌ کہ ماضی کی طرح‌ انسانوں ‌ کا استحصال ہونے سے بچایا جائے۔

اس استحصال کی کئی مثالیں ‌ ہیں ‌ جن میں ٹسکیگی سفلس ٹرائل (Tuskegee Syphillis trial) کا ذکر مناسب ہوگا جو کہ سفلس کی بیماری کے شکار سیاہ فام افراد کا مشاہدہ کرنے والی ریسرچ تھی۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ ان لوگوں ‌ کو علاج ہوتے ہوئے بھی فراہم نہیں ‌ کیا گیا اور یہ تحقیق 75 سال تک جاری رہی۔ صدر بل کلنٹن نے اس کے لیے باقاعدہ عوام سے معافی طلب کی۔ ان تمام ضروری باتوں کو سمجھ کر ریسرچ کا پروٹوکول بنا کر ریویو بورڈ (IRB) کو دیا جاتا ہے جو اس بات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ‌ کہ اس میں ‌ حصہ لینے سے مریضوں ‌ کو نقصان ہونے کا اندیشہ کم سے کم ہو۔ اگر پروٹوکول میں ‌کچھ تبدیلی کرنا ہو تو اس کی پہلے سے اجازت لینی پڑتی ہے ورنہ آپ کی اسٹڈی کینسل ہو جائے گی یا اس کے نتائج کو رد کر دیا جائے گا۔

اوسطاً ایک دوا کو مارکیٹ میں لانے پر ون پوائنٹ ٹو بلین ڈالر اور اوسطاً 14 سال صرف ہوتے ہیں۔ ایک دوا کو فارمیسی کی شیلف تک لانے پر ہزاروں ‌لوگوں ‌ نے مل کر کام کیا ہوتا ہے جس کا ہم خود ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک گاڑی ہزاروں ‌ پرزوں ‌ سے مل کر بنتی ہے۔ 2020 میں جب عالمی وبا نے دنیا کو ہلا دیا تو تمام دنیا کے سائنسدانوں نے سر جوڑ کر دن رات کام کیا۔ جس کام میں مہینوں اور سالوں لگتے تھے وہ ایک ریکارڈ رفتار سے کر لیا گیا۔

سب سے پہلے دوا کو جانوروں پر آزماتے ہیں۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ دوا زہریلی نہیں ‌ ہے تو پھر اس کو فیز ون میں ‌ صحت مند انسانوں ‌ میں ‌ آزماتے ہیں۔ ان سے بھی اچھے نتائج سامنے آئیں تو پھر ان کو فیز ٹو اور پھر فیز تھری میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ فیز تھری کے نتائج فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) کے سامنے رکھتے ہیں۔ جس کے بعد یہ دوا مارکیٹ میں بھیجنے کی رضامندی دی جاتی ہے۔ آپ کے ریسرچ سینٹر پر کبھی بھی وہ لوگ آڈٹ کرنے پہنچ سکتے ہیں کہ آپ کام ٹھیک سے کر رہے ہیں ‌اور ریکارڈ صحیح‌ رکھ رہے ہیں ‌یا نہیں۔

اس نئی دوا کو جانچنے کے لئے ٹرائل میں ‌ حصہ لینے والے مریضوں ‌ کا تفصیلی معائنہ ہوتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ دوا لینے والے مریضوں ‌ میں ‌ اور پلاسیبو یعنی نمک والا پانی لینے والے مریضوں ‌ میں ‌ کچھ فرق نہ ہو۔ اس اسٹڈی میں ‌ نہ تو انویسٹیگیٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ کس مریض کو دو ملی اور کس کو پلاسیبو اور نہ ہی مریضوں ‌ کو یہ بات پتہ ہوتی ہے۔ ان کو کمپیوٹر کے ذریعے دو گروپس میں ‌ تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس طریقے سے ریسرچ میں ‌ سے تعصب نکالا جاتا ہے جس کو انویسٹیگیٹر بائس (Investigator bias) کہتے ہیں۔ اگر میں ‌ ایک دوا ایجاد کروں ‌ اور مجھے یقین ہو کہ وہ کام کرتی ہے تو میں ‌ اپنے مریضوں ‌ میں ‌ یہی دیکھنا چاہوں ‌ گی جس کی وجہ سے میں ‌ خود ایسے نتائج پر پہنچ سکتی ہوں ‌ جو اصل میں ‌ سچ نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح‌ جب ایک مریض کو پتہ ہو کہ اس کو دوا ملی ہے پانی نہیں ‌ تو وہ بلاوجہ ہی بہتر محسوس کریں گے جس کو پلاسیبو ایفکٹ کہتے ہیں۔ اگر ایک مریض کو معلوم ہو کہ کسی دوا سے سر میں درد ہوتا ہے تو ان کو پلاسیبو لینے کے بعد بھی سر میں درد کی شکایت ہو سکتی ہے جس کو نوسیبو افیکٹ ( Nocebo effect) کہتے ہیں۔

ریسرچ میں حصہ لینے والے سب مریضوں ‌ کے ساتھ بالکل ایک جیسا ہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔ سب کے خون کے سیمپل ایک ہی لیب کو بھیجے جاتے ہیں۔ سب کا شروع میں ‌ اور آخر میں معائنہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ کہیں ‌ اس دوا سے ان کو نقصان تو نہیں ‌ ہوا۔

کورونا ویکسین کی ریسرچ میں ‌ ہزاروں ‌ لوگ حصہ لے رہے ہیں جن میں ‌ ڈاکٹر، انجینئر، نرسیں، ڈیٹا جمع کرنے والے لوگ، فارماسسٹ، سائنسدان، پتھالوجسٹ، ریڈیالوجسٹ، بزنس مینجمنٹ، لیبارٹری ورکرز، الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈ اور آئی ٹی شامل ہیں۔ ان سب لوگوں کے پاس اپنی اپنی فیلڈ کا لائسنس ہونا لازمی ہے۔ اسٹڈی کو ایک مانیٹرنگ کمپنی بھی مستقل مانیٹر کرے گی۔ وہ لوگ ہمارے کلینک میں ‌ بھی چکر لگا کر گئے کہ کلینک اصلی ہے یا کاغذ پر بنا ہوا ہے۔

اس تحقیق پر بہت سارا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ اس میں ‌ کام کرنے والے سب لوگوں ‌ کو تنخواہ مل رہی ہے۔ ریسرچ میں ‌ پیسہ کہاں ‌ سے آتا ہے؟ وہ حکومت کی دی ہوئی گرانٹس سے اور پرائیویٹ چندے اور انوسٹمنٹ سے آتا ہے۔ اگر دوا ابتدائی مرحلوں ‌ میں ‌ فائدہ دکھائے تو اس کی کمپنی بنا سکتے ہیں ‌ جس کے عام افراد شیئر ہولڈر بن جائیں۔ پھر جب اس دوا سے منافع ہو گا تو جنہوں ‌ نے اس میں ‌ پیسے لگائے ان کو بھی منافع ملے گا۔ سب کچھ ڈوب بھی سکتا ہے۔ بہت ساری دواؤں ‌ پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن وہ سب کامیاب نہیں ‌ ہوتیں۔

اب میں ‌ آپ کو ایک ‌ روایتی میڈیکل نصیحت کی مثال دیتی ہوں جو ایک صاحب نے میرے بلاگ پر کمنٹ میں لکھی تھی۔


اللہ تعالی نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کی دوا پیدا نہ فرمائی ہو البتہ موت کا کوئی علاج نہیں!

ذیابیطس کا غذائی پرہیز ہی واحد علاج ہے۔ جدید میڈیکل سائنس بھی ذیابیطس کے حتمی علاج سے ابھی تک عاری ہے اور تاحال صرف شوگر کے توازن کو برقرار رکھنا ہی علاج کہلاتا ہے۔ جو دیسی، قدرتی، یونانی علاج سے بھی ممکن ہے۔ درج ذیل تدابیر سے شوگر لیول کنٹرول اور مرض کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔

1۔ ہوالشافی: گٹھلی جامن خشک 100 گرام کوٹ چھان کر سفوف (پاؤڈر) بنا لیں اور 5 گرام سفوف پانی کے ساتھ دن میں دو بار صبح نہار منہ اور شام 5 بجے لیں۔
2۔ ہوالشافی: نیم کی کونپلیں 5 گرام پانی 50 ملی لیٹر میں پیس چھان کر صبح نہار منہ یا ناشتے کے ایک گھنٹے بعد لیں۔
3۔ ہوالشافی: کریلے کو کچل کر اس کا رس نچوڑ لیں یا جوسر میں اس کا جوس نکال لیں 25 ملی گرام یہ رس صبح و شام لیں۔
4۔ ہوالشافی: چنے کے آٹے (بیسن) کی روٹی اس مرض میں بہت مفید ہے۔
5۔ ہوالشافی: لوکاٹ کے پتے 7 عدد ایک کپ پانی میں جوش دے کر چائے بنائیں اس ہربل ٹی کے ساتھ گٹھلی جامن کا 5 گرام سفوف صبح منہ نہار پھانک لیں۔ انشاء اللہ چند دنوں میں شوگر کنٹرول ہو جائے گی۔

نشاستہ دار غذا۔ آلو، چاول، چینی وغیرہ سے پرہیز ضروری ہے۔

شوگر کا حتمی علاج موجود ہے، خود میری والدہ ماجدہ کو کئی سال سے یہ مہلک مرض لاحق تھا صرف چند دن علاج کے بعد اب الحمد للہ بالکل نارمل ہے و اذا مرضت فھو یشفین

شوگر کے لیے ہم کیپسول دیتے ہیں جنہیں لگاتار استعمال کراتے ہیں، یا پھر مریض کی حالت کے مطابق دوا تجویز کرتے ہیں، شوگر ایک یا دو دن میں ہی نارمل ہو جاتی ہے اکثر مریض صرف 2 ماہ کے یا اس سے بھی کم علاج سے ہی شفا یاب ہو جاتے ہیں جب کہ بہت کم مریضوں کا علاج تیسرے ماہ تک چلتا ہے

جو ہمارے پاس کورس ہے اس کی قیمت 15000 ہے جس سے انشاءاللہ خدا کے فضل سے شوگر جیسی موذی مرض ختم ہو جائے گی۔

ان ہدایات کے لیے میرے ذہن میں ‌ سوالیہ نشان ہے۔ یہ بھی نہیں ‌ کہہ سکتے کہ فائدہ نہیں ‌ ہوگا کیونکہ میں ‌ نے تجربے سے اس بات کو ثابت نہیں ‌ کیا کہ اس مشورے سے فائدہ نہیں ‌ ہوگا۔ اور فائدہ ہو گا یہ بات ان علاج بتانے والے صاحب نے ثابت نہیں ‌ کی۔ کیونکہ انہوں سے صرف دعوے پیش کیے ہیں اس کے ساتھ کوئی ڈیٹا پیش نہیں کیا۔

اب آپ اس نصیحت کا تنقیدی جائزہ لیں۔ پہلے سطر پر غور کریں۔ کچھ بیماریاں میڈیکل نہیں ‌ بلکہ سرجیکل ہوتی ہیں اور ان کا دوا سے علاج نہیں ‌ ہو سکتا۔ غذائی علاج ذیابیطس کے علاج کا نہایت اہم حصہ ہے لیکن یہ اس کا واحد علاج نہیں ہے۔ انسولین اور دیگر کئی مختلف طرح‌ کی دوائیں ‌ آج کل مارکیٹ‌میں ‌ ذیابیطس کے علاج کے لیے باآسانی دستیاب ہیں۔ انہوں ‌ نے اپنی امی کی مثال دی ہے جنہیں ‌ کئی سالوں ‌ سے ذیابیطس تھی تو پہلے علاج کیوں ‌ نہیں کیا؟

اور چند دن میں ‌ ہی اس کو ٹھیک کر دینا ایک بہت بڑا دعویٰ ‌ہے۔ ہتھیلی پر سرسوں ‌ نہیں ‌ اگا سکتے ہیں۔ ٹھیک سے کام کرنے میں ‌ ٹائم لگتا ہے۔ پہلے انہوں ‌ نے کہا کہ غذائی علاج ہی واحد علاج ہے پھر وہ آپ سے کہہ رہے ہیں ‌ کہ ان کی دوا آپ خریدیں۔ پہلے کہہ رہے ہیں ‌ کہ جدید میڈیکل سائنس تک ذیابیطس کا حتمی علاج نہیں ‌ کر سکتی پھر آپ کو وہ بتا رہے ہیں کہ ان کی دوا سے آپ کو چند دنوں ‌میں ‌ شفا مل جائے گی۔ اس نصیحت میں ‌ کتنا وزن ہے؟

ذیابیطس کا ہر مریض دوسرے مریض سے مختلف ہے اور ایک ہی ذیابیطس کے مریض‌ کا علاج بھی وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کی انفرادی سچوئیشن کے لحاظ سے بدلتا رہے گا۔ اگر آپ کو کوئی مشورہ دے تو ان سے پوچھیں ‌کہ اس معلومات کا منبع کیا ہے؟ ان معلومات کی بنیاد کیا ہے؟ تہذیب، اعتقادات، ثقافت، قدیم رواج یا نسل در نسل چلتی روایت؟

میرے نانا کہتے تھے کہ بادام کھانے سے دماغ تیز ہوجاتا ہے۔ اگر میں ‌ نانا کی نصیحت کو اصلی کلینک میں ‌ آزمانا چاہوں ‌ تو پہلے اس پر پروپوزل لکھنا ہوگا جس کو رویو بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے۔ جب وہ منظوری دے دیں کہ یہ ریسرچ اب انسانوں میں کی جا سکتی ہے۔ پھر کیپسول بنانے ہوں ‌ گے جن میں ‌ یا تو بادام پیس کر ڈالا ہو یا کوئی اور پاؤڈر جو دیکھنے میں ‌ ایک جیسے لگیں۔ پھر ان کو ایک ہی طرح ‌کے مریضوں ‌ میں ‌ آزمانا ہوگا۔

اس کے بعد جو بھی نتائج نکلیں ‌ ان کو قبول کرنا ہوگا۔ اگر میں ‌ کہوں ‌ کہ میرے نانا تو غلط ہو ہی نہیں ‌ سکتے اور یہ ریسرچ غلط ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ میں ‌ نے سچائی جاننے کے لئے نہیں ‌ بلکہ اپنے نانا کو اپنے جذبات کی وجہ سے درست ثابت کرنے کے لیے یہ ریسرچ کی تھی۔ اگر نانا کو صحیح‌ہی ثابت کرنا ہے تو ان کو ویسے ہی صحیح کہہ دیتے ہیں، اتنا لمبا چوڑا تردد کر کے اتنے لوگوں ‌ کی اتنی محنت، وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی کیا تک ہے؟ اس کو کنفرمیشن بائس (Confirmation bias) بھی کہتے ہیں۔ یعنی اپنے عقائد کو درست ثابت کرنے کے چن کر صرف وہ تحقیق سامنے رکھنا جس سے ہماری تائید ہوتی ہو۔

حقیقت اور خیالی دنیا کو ملانے سے سمجھ اور حقیقی دنیا کے بیچ خلیج بن جاتی ہے۔ اس لیے پہلی اینٹ سے عمارت کو سمجھانا ہوگا۔ اس تحریر کا مقصد ہے کہ معلومات کے منبع کو سمجھا جائے یعنی کہ اگر کوئی ایک بیان دیتا ہے کہ جیسے ”آسمان نیلا ہے“ یا پانی کے مالیکیول میں ‌ دو ہائیڈروجن اور ایک آکسیجن کا مالیکیول ہے ”تو یہ معلومات کیسے حاصل کی گئیں اور کیا دنیا میں ‌ ہر جگہ تجربہ کرنے سے یہی معلومات حاصل ہوں ‌گی؟

نئے پروسیجر، دوائیاں ‌ اور وقت تبدیل ہونے سے نتائج کس طرح‌ مختلف نکلتے ہیں؟ اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنی معلومات اور سمجھ میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ذاتی طور پر ہم میں اتنی سمجھ ہو کہ غلط اور درست معلومات میں فرق سمجھ سکیں۔ اس سے ہم خود اپنے لیے اور اپنے عزیزوں کے لیے بہتر فیصلے کرنے کے لائق بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).