سفارت کو بھی جنگ کا میدان سمجھیں


سفارتی میدان میں بھی جنگ لڑی جاتی ہے۔ جنگ کا آغاز تو توپ تفنگ سے ہوتا ہے لیکن اختتام ہمیشہ سفارت کار ایک پیچیدہ ڈپلومیٹک جنگ لڑ کر کرتے ہیں۔ ایک سیانا کہہ بھی گزرا ہے کہ ”امن کی تلاش اس وقت شروع ہوتی ہے جب جارحیت کے تمام ذرائع تمام ہو جائیں“ ۔

مثلاً آپ نے بارہا سنا ہو گا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سنہ 1965 کی جنگ میدان میں جیت کر تاشقند میں ہار دی تھی۔ یا پھر یہ کہ جنرل پرویز مشرف نے کارگل کے پہاڑ پر جو جنگ جیتی تھی وہ نواز شریف نے کلنٹن کی میز پر ہار دی حالانکہ اس وقت بھی بہادر جوان اسلحے، حتیٰ کہ کھانے کے بغیر بھی کئی روز سے بھوکے رہ کر جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ بات بھی عموماً تسلیم کی جاتی ہے کہ سنہ 1971 کی جنگ ہارنے کے باوجود شملہ کانفرنس میں سفارت کاری کی جنگ بھٹو نے جیتی اور شکست خوردہ لشکر کو رہائی دلوا دی۔

سوویت یونین کی افغانستان میں جنگ بھی پرانی بات نہیں۔ ہماری تاریخ کا یہ زخم ابھی تک رس رہا ہے۔ سوویت یونین نے چاند تارے تباہ کر دینے کے قابل لشکر ہونے کے باوجود افغانستان میں فتح نہ پائی۔ آخر جنیوا کی میز پر اس نے سفارت کاری دکھا کر بچت کی راہ پائی۔

وار آن ٹیرر تو ابھی بالکل تازہ معاملہ ہے۔ یک قطبی سپر پاور امریکہ نے کم و بیش دو دہائیوں تک افغانستان پر بے تحاشا قوت آزمائی۔ فتح کی صورت مگر اس نے نہ پائی۔ تنگ ہو کر اس نے سفارتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور قطر جا نکلا۔ اور اب وہ پرامید ہے کہ وہ اس سفارتی جنگ میں ایسے اہداف حاصل کر لے گا جو وہ میدان جنگ میں حاصل کرنے سے قاصر رہا۔

تاریخ میں جنگ کا فیصلہ سفارتی میدان میں کرنے کا سب سے پہلا ذکر ہمیں فرعون کے ہاں ملتا ہے۔ کوئی ساڑھے تین ہزار برس پہلے مشرق وسطیٰ میں دو سپر پاورز ہوتی تھیں۔ مصر کے فرعون اور اناطولیہ کی حتی سلطنت۔ دونوں کا کسی تجارتی معاملے پر قادیش نامی شہر میں جھگڑا ہو گیا۔ لڑائی میں فرعون رعمسیس ثانی اور حتی شاہ مواتالی دونوں تیز تھے۔ کہانی کے مطابق لڑتے لڑتے ایک کی چونچ گم ہو گئی دوسرے کی دم۔ کسی کو فتح نہ ہوئی۔

اسی اثنا میں آشوریوں نے زور پکڑ کر دونوں کی پٹائی کرنا شروع کر دی اور تجارت ہڑپ کرنے لگے۔ سولہ برس ایک دوسرے سے جنگ کرنے کے بعد مصریوں اور حتیوں نے سفارتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور صلح نامے پر دستخط کر دیے۔ قادیش کا یہ صلح نامہ آج بھی محفوظ ہے اور تاریخ کا مکمل طور پر محفوظ پہلا صلح نامہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سفارت کاری میں دونوں نے نہ صرف ایک دوسرے کو برادر ملک قرار دیا بلکہ باہمی سرحدوں کے تعین، ایک دوسرے کے باغی واپس کرنے اور کسی تیسری سلطنت کی جانب سے ایک پر حملے کی صورت میں دوسرے کی جانب سے مدد کا معاہدہ ہوا۔ فرعون نے اپنے ملک واپس جا کر اسے جنگ میں اپنی عظیم فتح قرار دیا اور اپنی شان میں خوب یادگاریں بنوائیں۔

آپ نے نوٹ کیا کہ قدیم زمانے سے ہی بڑی جنگوں کا نتیجہ سفارت کاری کے ذریعے ہی نکالا جاتا رہا ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہ بیک وقت حکمران، جرنیل اور سفارتی امور کا ماہر ہوتا تھا اور فرعون بھی اپنے جرنیلوں کے ذریعے ہی سفارت کاری کیا کرتا تھا۔

اس تاریخی تناظر کو دیکھتے ہوئے کہ جنگیں، سفارتی میدان میں لڑی جاتی ہیں، ہماری رائے میں تو یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ حاضر سروس یا ریٹائرڈ جرنیلوں کو ہی سفارت کاری بھی سونپ دی جائے اور بالآخر دفتر خارجہ کو وزارت دفاع کا ایک ذیلی محکمہ بنا دیا جائے۔ باقی دنیا اگر حماقت کر رہی ہے اور سفارت کاری کے لیے الگ ماہرین رکھے ہوئے ہیں تو ہمیں اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں۔ مت بھولیں کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں سے ایک ہے۔ اگر ڈنڈے سے ہمارا کام چل سکتا ہے تو لفظوں کے طوطا مینا بنانے والے ماہرین ہمارے کس کام کے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar