کیری لوگر بل، سلالہ سانحہ، ریمنڈ ڈیوس، بلیک واٹرسمیت ایبٹ آباد آپریشن کی تلخ یادوں کے ساتھ پاکستان اور جو بائیڈن


78 سالہ جو بائیڈن نے امریکا کا معمر ترین امریکی صدر منتخب ہو کر نئی تاریخ رقم کردی، دوسری جانب امریکی تاریخ میں صدر ٹرمپ ایک ایسے متنازع صدر کے طور پر تاریخ رقم کر گئے، جنہوں نے انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے، پورے انتخابی عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دھاندلی کے سخت الزامات کے بعد جو بائیڈن کو روایتی طور پر صدر اتی انتخابات میں جیتنے پر مبارک باد تک نہیں دی، بلکہ نتائج کو انتہائی متنازع قرار دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کو نہ چاہتے ہوئے خالی کرنے پر مجبور ہوئے۔
جو بائیڈن نے 538 میں سے 306 الیکٹرول ووٹ حاصل کرنے کے بعد صدارتی توثیق کے تمام مراحل و قانونی ضروریات میں کامیابی حاصل کی اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد امریکا کی عالمی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ دنیا بھر میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیا جا چکا ہے اور جو بائیڈن کے لئے اپنی دور صدارت میں ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں سے جلد رجوع کرنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے، خاص کر یہ خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ امریکی روایات کے مطابق جو بائیڈن کے لئے اتنا آسان بھی نہیں ہوگا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کی ایسی پالیسیوں کو مکمل تبدیل کردیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر نافذ کی گئیں۔
صدر جو بائیڈن کی دو برس کی طویل انتخابی مہم کے دوران کئی اتار چڑھاؤ آئے، انہوں نے ڈیمو کرٹیک امیدواروں کو شکست دے کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ثابت کر دیا تھا کہ اگر ٹرمپ کو کوئی شکست دے سکتا ہے تو اس لئے وہ ایک مکمل امیدوار ہیں، امریکی انتخابات میں ملنے والے 81,281,891 پاپولر ووٹ حاصل کر کے جیت کی توثیق کی کہ جو بائیڈن نے اپنے تمام کارڈز بخوبی کھیلے، سوئنگ ریاستوں سے اعصاب شکن مقابلے میں ٹرمپ ( 232 الیکٹرول اور 74,223,254 ووٹ) کو غیر متوقع شکست سے دوچار کرنے کے بعد تحمل و برداشت کا جمہوری مظاہرے نے جو بائیڈن کے انتخاب پر مہر ثبت کی کہ کئی معاملات میں جذباتی قرار دیے جانے والے جو بائیڈن نے حتمی اعلان ہونے تک تدبر سے کام لیا اور عجلت پسندی سے کام لینے اور بیانات دینے میں احتیاط کا مظاہرہ کیا، جس کا انہیں فائدہ پہنچا اور ٹرمپ کو اخلاقی طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
عالمی سروے بتا چکے تھے کہ ٹرمپ و جو بائیڈن میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا، حسب توقع 51.3 % بمقابلہ 46.9 % ایسا ہی ہوا، تاہم ٹرمپ پوسٹل ووٹ سسٹم سے ناخوش تھے اور انہیں خدشات تھے کہ پوسٹل ووٹنگ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے پوسٹل ووٹنگ رکوانے کی متعدد کوشش کیں لیکن امریکی پوسٹل محکمے و ریاستوں نے پوسٹل ووٹنگ سسٹم کو شفاف و قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کے تحفظات کو نظر انداز کیا۔ واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں پہلی بار 10 کروڑ سے زائد ووٹ قبل از وقت ڈالے گئے، ٹرن آؤٹ 66 فیصد رہا۔

ٹرمپ کی حامی، نسل پرستی اور سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے شکست پر سخت دل برداشتہ ہوئے، جس کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور جمہوریت کے مندر کو نشانہ بنایا گیا، حلف برداری کی روایتی تقریب جو پہلے ہی کرونا وبا کی وجہ سے محدود اور عوامی نہیں بن سکتی تھی، پرتشدد ردعمل و خطرات کی وجہ سے سخت ترین سیکورٹی میں ہوئی، جو بائیڈن اب امریکا کے 46 ویں صدر بن چکے ہیں، انہیں ایوان نمائندگان و سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہے، عوام کی اکثریت بھی انہیں سپورٹ کرتی ہے، ان حالات میں ڈیموکرٹیکس کے لئے موافق صورتحال کے باعث صدر کے لئے کام کرنا آسان ہوتا ہے، امریکا کو اس وقت دنیا کے سب سے بڑے بحران کرونا وبا کا سامنا ہے، شدید مالی و معاشی بحران کی وجہ سے امریکا اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے، سابق صدر بش نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ چھیڑ کر پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا تھا، جس کے مضر اثرات سے اس وقت بھی دنیا باہر نہیں نکل سکی ہے۔
افغانستان اور عراق میں جارحیت کے 19 برس بعد بھی امریکا اپنے اہداف میں کامیابی کا دعویٰ نہیں کر سکتا بالخصوص مشرق وسطیٰ و افغانستان میں مداخلت نے امریکا کو بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹرمپ نے گو کہ شمالی کوریا، چین، ایران سمیت کئی ممالک کے ساتھ جنگجویانہ رویہ اختیار کیا اور بارہا حملے کی دھمکیاں بھی دیں لیکن ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ناتے وہ اچھے طرح جانتے تھے کہ جنگ ایک گھاٹے کا سودا ہے، اس لئے سنگین ترین لمحات میں بھی ٹرمپ نے جنگ کی غلطی دہرانے کی کوشش نہیں کی، اگر ایسے ٹرمپ کا مثبت پہلو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایران، شمالی کوریا اور چین کے ساتھ سخت ترین تناؤ کے باوجود جنگ کرنے سے احتراز کی راہ اختیار کی، گو کہ معاشی پابندیاں بڑھانے پر پوری قوت صرف کی اور ٹویٹر پر سنگ باریاں کرتے رہے لیکن جنگ سے گریز کرنے سے عالمی امن کسی بڑی جنگ سے بچنے میں کارآمد ہوئی۔ اگر ٹرمپ، سابق امریکی صدور کی طرح نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جنگ کی صورت میں پوری دنیا میں امن داؤ پر لگاتے تو نئی جنگوں سے اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے امریکی معیشت کا مزید بیڑا غرق ہوجاتا بلکہ امریکی معیشت کے برے اثرات سے یورپ سمیت دنیا کے تمام خطے مزید متاثر ہو جاتے۔
کئی مسلم اکثریتی ممالک میں خانہ جنگیاں، معاشی بحران و بے امنی سابق صدر بش کی مرہون منت و صلیبی جنگ کے جنون کے دین ہے جس سے تاحال باہر نہیں نکلا جا سکا۔ بالخصوص پاکستان جس طرح دہشت گردی کا شکار رہا اور خود کش دھماکوں نے پاکستانی معیشت کے ساتھ خارجہ پالیسی میں نقصان اٹھایا اس کا مداوا بش کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت نے نہیں کیا۔ اوبامہ کے دور میں پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات مزید خراب تر ہوتے چکے گئے یہاں تک کہ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی پالیسی میں پاکستان کے لئے جس قسم کا رویہ و پالیسی اپنائی وہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کرتے چلے گئے، امریکا کا بھارت کی جانب جھکاؤ اور پاکستان پر دباؤ کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب ریاست نے خطے میں امن کے خاطر امریکا کے لئے قبرستان بننے والے افغانستان کی بند گلی سے نکالنے کے لئے اہم ٹھوس بنیادوں پر سہولت کاری کر کے امریکا کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔
وگرنہ غیر جانبدارانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو ماضی میں حکومت کو دیوالیہ تک لے جانے، ریکارڈ بے روزگاری، اداروں کی تباہی، مالیاتی نظام کی بربادی اور غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافے کا نکتہ آغاز دراصل امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی جنونی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان پر جبراً مسلط کیا گیا جس کے بعد سے پاکستان مسلسل گراؤٹ کا شکار ہے اور ہر آنے والی حکومت کو مسائل ورثے میں ملتے رہے ہیں۔
جو بائیڈن کے ساتھ پاکستانی حکام و سیاست دانوں کے تعلقات نئی نوعیت کے نہیں ہوں گے، جو بائیڈن، اوبامہ انتظامیہ میں پاکستان کے ساتھ سیاسی و سفارتی تعلقات سے واقفیت رکھتے ہیں اور ان کے لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی ترویج کرنا کوئی نیا معاملہ نہیں، یقینی طور ٹرمپ دور میں پاکستان کے ساتھ امریکی رویے اور مملکت کی جانب سے امریکی مفادات کے لئے پہلے سے بڑھ کر سہولت کاری کا مثبت رویہ جو بائیڈن کو پاکستان کے ساتھ مثبت و تعمیری تعلقات میں معاونت فراہم کرے گا اور امریکا کو پاکستان کے ساتھ ایسا منفی رویہ اختیار سے بھی روکنے میں تعاون فراہم کرے گا جو اس سے قبل ان کے نائب صدارت کے دور میں کشیدگی کی حد تک بڑھ چکے تھے۔ جو بائیڈن کا دور نائب صدارت کا تجربہ پاکستان کے حوالے سے اتنا خوشگوار نہیں رہا ہے کیونکہ ان کے دور میں پاکستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ عروج پر تھا، کیری لوگر بل، سلالہ سانحہ، ریمنڈ ڈیوس تنازع سمیت ایبٹ آباد آپریشن جیسے واقعات سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
جو بائیڈن اور پاکستان ان ناخوشگوار یادوں کے ساتھ ایک نئے مثبت سفارتی دور کا آغاز کرنے کے خواہاں ہو سکتے ہیں، کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ امریکا کے لئے اس نے وہ ناممکنات کام میں سہولت کاری ہے جس کے باعث امریکا، افغانستان کی سرزمین سے اپنے باقی ماندہ فوجیوں کو باعزت طریقے سے واپس لے جانے کا راستہ حاصل کرچکا ہے، اسی طرح ماضی کے مقابلے میں پاکستان، امریکا کی فوجی ساز و سامان کی واپسی کے لئے زبردست معاونت فراہم کر رہا ہے، خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ایسا کوئی کردار بھی ادا نہیں کر رہا، جس سے امریکا کو مزید سبکی و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے، بصورت ایران و امریکا تنازع میں امریکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔
جو بائیڈن کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی جانب رہا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1975 میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو پابندیوں کے خلاف امریکی کانگریس میں پابندی کی قرار داد میں ناکامی میں ایک ووٹ کی وجہ سے بھارت بچ گیا اور وہ ووٹ جو بائیڈن کا تھا۔ گو کہ مودی سرکار ٹرمپ کے انتہائی قریبی رہی ہے اور کھلم کھلا ٹرمپ کا ساتھ بھی دیا، لیکن امریکی پالیسیوں، شخصیات کے تعلقات پر ہمیشہ حاوی رہی ہیں، وگرنہ نائب امریکی صدر کملا ہیرس کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھارت کی موجودہ ریاستی پالیسی کے شدید مخالفت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن امریکا، بھارت کے تعلقات کی نئی نوعیت چین مخالفت کی وجہ سے دیرینہ ہو چکی ہے اس لئے یہ توقع رکھنا خوش فہمی ہو سکتی ہے کہ جو بائیڈن اور کملا ہیرس کے آنے سے مودی سرکار کو جھٹکا ملے گا، پاکستان کو امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے لئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہوگی اور جو بائیڈن کو اوباما دور کے خمار سے نکالنے کے لئے مربوط حکمت عملی اپنانی کی ضرورت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).