سبھاش چندر بوس ’محمد ضیا الدین‘ بن کر کیسے انڈیا سے جرمنی پہنچے؟


 

سبھاش چندر بوس

سنہ 1940 میں جب ہٹلر کے بمبار لندن پر بم گرا رہے تھے تو اس وقت برطانوی حکومت نے اپنے سب سے بڑے دشمن سبھاش چندر بوس کو کلکتہ کے پریزیڈنسی جیل میں قید کر رکھا تھا۔

انگریز حکومت نے بوس کو 2 جولائی سنہ 1940 کو غداری کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ 29 نومبر 1940 کو سبھاش چندر بوس نے جیل میں اپنی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھوک ہڑتال شروع کر دی۔

ایک ہفتے بعد پانچ دسمبر کو گورنر جان ہربرٹ نے بوس کو ایمبولینس میں ان کے گھر بھیج دیا تاکہ برطانوی حکومت کو ان الزامات کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ بوس کی ان کی قید میں موت ہوئی ہے۔

ہربرٹ کا ارادہ تھا کہ جیسے ہی بوس کی صحت بہتر ہوگی وہ اسے دوبارہ تحویل میں لے لیں گے۔ حکومت بنگال نے نہ صرف 38/2 ایلگین روڈ پر واقع ان گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں پولیس کا سخت پہرہ لگا رکھا تھا بلکہ گھر کے اندر ہونے والی نقل و حرکت کو جاننے کے لیے بھی اپنے کچھ جاسوسوں کو تعینات کر رکھا تھا۔

ان میں سے ایک جاسوس ایجنٹ 207 نے حکومت کو خبر دی تھی کہ سبھاش بوس نے جیل سے گھر واپس آنے کے بعد جو کا دلیہ اور سبزیوں کا سوپ لیا تھا۔

اس دن کے بعد سے ہی ان کے یہاں آنے والے ہر فرد کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور بوس کے بھیجے ہوئے ہر خط کو پوسٹ آفس ہی میں کھول کر پڑھا لیا جاتا تھا۔

کیا میرا ایک کام کروگے؟

پانچ دسمبر کی سہ پہر کو سبھاش نے اپنے 20 سالہ بھتیجے ششیر کا ہاتھ کچھ زیادہ دیر تک اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس وقت سبھاش کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے پڑے تھے۔

سبھاش چندر بوس کے پوتے اور ششیر کے بیٹے سوگت بوس نے مجھ سے کہا تھا: ’سبھاش نے میرے والد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا‘ امار ایکٹا کاج کورتے پربے؟‘

یعنی ’کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟‘ ششیر نے کام کے بارے میں جانے بغیر ہی ہامی بھر لی۔

بعد میں یہ پتا چلا کہ وہ چپکے سے انڈیا چھوڑنے میں ششیر کی مدد لینا چاہتے تھے۔

یہ منصوبہ بنایا گیا کہ ششیر رات گئے اپنے چچا کو کلکتہ سے دور ایک ریلوے اسٹیشن لے جائیں گے۔

سبھاش اور ششیر نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر کے مرکزی دروازے سے ہی باہر نکلیں گے۔ ان کے پاس دو آپشن تھے۔ یا تو وہ اپنی جرمن وانڈرر کار یا امریکی اسٹڈبیکر کا استعمال کریں گے۔

امریکی کار بڑی ضرور تھی لیکن اسے آسانی سے پہچانا جاسکتا تھا، لہٰذا اس سفر کے لیے وانڈرر کار کا انتخاب کیا گیا۔

ششیر کمار بوس اپنی کتاب ’دی گریٹ سکیپ‘ میں لکھتے ہیں: ’ہم وسطی کلکتہ میں ویچل مولا ڈپارٹمنٹ سٹور گئے اور بوس کا بھیس بدلنے کے لیے کچھ ڈھیلی شلواریں اور ایک فوجی ٹوپی خریدی۔ اگلے کچھ دنوں میں ہم نے ایک سوٹ کیس، ایک بریف کیس، دو کارٹس وول شرٹس، کچھ ٹوائلٹ کی چیزیں، تکیے اور کمبل خریدے۔ میں ایک فیلٹ ہیٹ لگا کر ایک پرنٹنگ پریس گیا اور وہاں میں نے سبھاش کے لیے وزیٹنگ کارڈ پرنٹ کرنے کا آرڈر دیا۔ کارڈ پر درج تھا: ’محمد ضیاالدین، بی اے، ایل ایل بی، ٹریولنگ انسپکٹر، دی ایمپائر آف انڈیا اشورنس کمپنی لمیٹڈ، مستقل پتا، سول لائنز، جبل پور۔‘

ماں کو بھی سبھاش جانے کی خبر نہیں

سفر سے ایک رات قبل ششیر کو پتا چلا کہ جو سوٹ کیس وہ لائے تھے وہ وانڈرر کار کی ڈگی میں فٹ سما نہیں رہا تھا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ سبھاش کا پرانا اٹیچی کیس ہی ان کے ساتھ جائے گا۔

اس پر لکھے ان کے نام ایس سی بی کو مٹا کر اس کی جگہ چینی روشنائی سے ایم زیڈ لکھا دیا گیا۔

16 جنوری کو کار کی سروسنگ کروائی گئی۔ انگریزوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان کے فرار کی بات باقی گھر والوں، یہاں تک کہ ان کی والدہ سے بھی پوشیدہ رکھی گئی۔

جانے سے پہلے، سبھاش نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ آخری کھانا کھایا۔ اس وقت انھوں نے ریشم کا کرتہ اور دھوتی پہن رکھی تھی۔ سبھاش کو گھر چھوڑنے میں تھوڑی تاخیر ہو گئی کیونکہ گھر کے کچھ لوگ ابھی بیدار تھے۔

سونے کے کمرے کی روشنی جلتی چھوڑی گئی

’ہز میجسٹیز اپونینٹ‘ نامی کتاب لکھنے والے سوگت بوس نے مجھ سے کہا: ’تقریباً ڈیڑھ بجے رات کو سبھاش بوس نے محمد ضیاالدین کا حلیہ اختیار کیا۔ انھوں نے سونے کی رم والی اپنی عینک پہنی، جو ایک دہائی قبل انھوں نے پہننا چھوڑ دیا تھا۔ ششیر کی لائی ہوئی کابلی چپلیں انھیں راس نہیں آئيں۔ چنانچہ لمبے سفر کے لیے چمڑے کے فیتے والے جوتے پہنے۔ سبھاش کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ششیر نے وانڈرر کار بی ایل اے 7169 کا انجن سٹارٹ کیا اور اسے گھر کے باہر لے آئے۔ اگلے ایک گھنٹے کے لیے سبھاش کے بیڈ روم کی روشنی جلتی چھوڑ دی گئی۔

جب سارا کلکتہ گہری نیند میں سو رہا تھا تو چچا اور بھتیجے لوئر سرکلر روڈ، سیالدہ اور ہیریسن روڈ کے راستے ہوگلی ندی پر بنے پل کو پار کر رہے تھے۔

دونوں چندر نگر سے گزرے اور صبح ہوتے ہوتے آسنسول کے مضافات میں پہنچ چکے تھے۔

صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ششیر نے سبھاش کو دھن آباد کے براری میں واقع اپنے بھائی اشوک کے گھر سے کچھ سو میٹر کے فاصلے پر کار سے اتار دیا۔

ششیر کمار بوس اپنی کتاب ’دی گریٹ سکیپ‘ میں لکھتے ہیں: ’میں اشوک کو بتا ہی رہا تھا کہ کیا معاملہ ہے کہ انشورنس ایجنٹ ضیاالدین (دوسرے بھیس میں سبھاش) جو ذرا فاصلے پر اتارے گئے تھے، گھر میں داخل ہوئے۔ وہ اشوک کو انشورنس پالیسی کے بارے میں بتا ہی رہے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم شام کو یہ باتیں کریں گے۔ نوکروں کو حکم دیا گیا کہ ضیاالدین کے آرام کے لیے ایک کمرے میں انتظامات کریں۔ ان کی موجودگی میں اشوک نے مجھے انگریزی میں ضیاءالدین کا تعارف کروایا جبکہ چند منٹ قبل میں نے ہی انھیں اپنی کار سے اشوک کے گھر کے قریب اتارا تھا۔‘

گومو سے کالکا میل لی

شام کو گفتگو کے بعد ضیاءالدین نے اپنے میزبان سے کہا کہ وہ گومو سٹیشن سے کالکا میل پکڑ کر آگے کا سفر کریں گے۔

کالکا میل رات دیر سے گومو اسٹیشن پر آتی تھی۔ گومو سٹیشن پر نیند کے خمار میں ڈوبے ایک قلی نے سبھاش چندر بوس کا سامان اٹھایا۔

ششیر بوس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ‘میں نے اپنے رنگا کاکا بابو کو آہستہ آہستہ قلی کے پیچھے اوور برج پر چڑھتے دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلتے چلتے اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ کچھ ہی منٹوں میں کلکتہ سے کالکا میل وہاں پہنچی۔ میں اس وقت تک سٹیشن کے باہر کھڑا تھا۔ دو منٹ بعد میں نے کالکا میل کے پہیوں کی حرکت کی آواز سنی۔‘

سبھاش چندر بوس کی ٹرین پہلے دہلی پہنچی۔ پھر وہاں سے انھوں نے پشاور کے لیے فرنٹیئر میل لی۔

سبھاش کو پشاور کے تاج محل ہوٹل میں ٹھہرایا گیا

19 جنوری کی شام کو جب فرنٹیئر میل پشاور کے کینٹ سٹیشن میں داخل ہوئی تو میاں اکبر شاہ باہر نکلنے والے دروازے کے قریب کھڑے تھے۔ انھوں نے ایک اچھی شخصیت والے مسلمان آدمی کو گیٹ سے باہر آتے دیکھا۔

وہ سمجھ گئے کہ وہ سبھاش چندر بوس کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ اکبر شاہ ان کے پاس گئے اور ان سے ایک منتظر تانگے میں بیٹھنے کے لیے کہا۔

پشاور

اس دور کا پشاور شہر

انھوں نے تانگے والے کو ہدایت کی کہ وہ صاحب کو ڈین ہوٹل لے جائیں۔ پھر وہ ایک دوسرے تانگے میں بیٹھے اور سبھاش کے تانگے کے پیچھے چلنے لگے۔

میاں اکبر شاہ اپنی کتاب ’نیتا جیز گریٹ سکیپ‘ میں لکھتے ہیں: ’میرے تانگے والے نے مجھے بتایا کہ آپ اتنے مذہبی مسلمان شخص کو بد عقیدوں کے ہوٹل میں کیوں لے جارہے ہیں۔ آپ انھیں تاج محل ہوٹل کیوں نہیں لے جاتے، جہاں مہمانوں کے لیے جا نماز اور وضو کے لیے پانی بھی فراہم کیا جاتا ہے؟ میں نے بھی محسوس کیا کہ تاج محل ہوٹل بوس کے لیے زیادہ محفوظ مقام ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ڈین ہوٹل میں پولیس جاسوسوں کا امکان ہوسکتا ہے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں: ’چنانچہ درمیان میں ہی دونوں تانگوں کے راستے بدل گئے۔ تاج محل ہوٹل کے منیجر محمد ضیاءالدین سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھوں نے ان کے لیے فائر پلیس والا ایک خوبصورت کمرہ کھول دیا۔ اگلے ہی دن میں نے سبھاش چندر بوس کو اپنے ایک ساتھی آباد خان کی رہائش گاہ پر منتقل کردیا۔ اگلے کچھ دنوں میں سبھاش بوس نے ضیاالدین کا بھیس اتار کر ایک بہرے پٹھان کا بھیس اختیار کرلیا۔ یہ اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ سبھاش مقامی پشتو زبان بولنا نہیں جانتے تھے۔

اڈا شریف کے مزار کی زیارت

سبھاش کے پشاور پہنچنے سے پہلے ہی اکبر نے فیصلہ کیا تھا کہ فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے دو افراد محمد شاہ اور بھگت رام تلوار بوس کو انڈین سرحد کے اس پار لے جائیں گے۔

بھگت رام کا نام بدل کر رحمت خان رکھ دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے گونگے بہرے رشتہ دار ضیاالدین کو اڈا شریف کی مزار پر لے جائے گا جہاں ان کے لیے دوبارہ بولنے اور سننے کی دعا کی جائے گی۔

26 جنوری 1941 کی صبح محمد ضیاءالدین اور رحمت خان ایک کار میں روانہ ہوئے۔ دوپہر تک انھوں نے اس وقت کی برطانوی سلطنت کی حدود کو عبور کرلیا تھا۔

کار کو وہیں چھوڑ کر وہ شمال مغربی سرحدی علاقے کے غیر ہموار راستے پر پیدل چلنے لگے۔

27-28 جنوری کی آدھی رات کو وہ افغانستان کے ایک گاؤں میں پہنچے۔

میاں اکبر شاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’ان لوگوں نے چائے کے کارٹنوں سے بھرے ایک ٹرک میں لفٹ لی۔ 28 جنوری کی رات جلال آباد پہنچے۔ اگلے دن انھوں نے جلال آباد کے قریب اڈا شریف مزار کی زیارت کی۔ 30 جنوری کو انھوں نے تانگے سے کابل کا رخ کیا۔ پھر وہ ایک ٹرک پر بیٹھ گیا اور بڈ خاک کے چیک پوائنٹ پر پہنچے۔ وہاں سے وہ 31 جنوری 1941 کی صبح ایک اور تانگے سے کابل میں داخل ہوئے۔‘

آنند بازار پتریکا میں سبھاش کے لاپتہ ہونے کی خبر شائع ہوئی

دریں اثنا سبھاش کو گومو سٹیشن پر چھوڑ کر ششیر 18 جنوری کو کلکتہ واپس آئے اور انھوں نے اپنے والد کے ساتھ سبھاش چندر بوس کے سیاسی گرو چیترنجن داس کی پوتی کی شادی میں شرکت کی۔

جب لوگوں نے ان سے وہاں سبھاش کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ان کے چچا شدید بیمار ہیں۔

سوگت بوس اپنی کتاب ’ہز میجسٹیز اپونینٹ‘ میں لکھتے ہیں: ’اس دوران ایلگین روڈ پر واقع سبھاش بوس کے گھر میں ان کے کمرے میں روزانہ کھانا پہنچایا جاتا تھا۔ ان کے بھتیجے اور بھتیجیاں کھانا کھاتے رہے تاکہ لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ سبھاش ابھی بھی اپنے کمرے میں موجود ہیں۔ سبھاش نے ششیر سے کہا تھا کہ اگر اس نے میرے فرار کی خبر چار پانچ دن چھپادی تو کوئی انھیں پکڑ نہیں سکتا تھا۔ 27 جنوری کو سبھاش کے خلاف عدالت میں کیس کی سماعت ہونی تھی۔ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسی دن عدالت کو بتایا جائے گا کہ سبھاش گھر میں کہیں نہیں ہیں۔‘

سبھاش کے دو بھتیجوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ وہ گھر سے غائب ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر سبھاش کی والدہ پربھاوتی کا رو رو کر برا حال ہو گیا۔

ان کی تسلی کے لیے سبھاش کے بھائی سرت نے اسی وانڈرر کار سے سبھاش کی تلاش میں اپنے بیٹے ششیر کو کالی گھاٹ کے مندر بھیج دیا۔

27 جنوری کو سبھاش کے لاپتہ ہونے کی خبر سب سے پہلے ’آنند بازار پتریکا‘ اور ’ہندوستان ہیرالڈ‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد اسے روئٹرز نے اٹھا لیا۔ جہاں سے یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی۔

یہ سن کر برطانوی انٹیلی جنس افسران نہ صرف حیران ہوئے بلکہ شرمندہ بھی ہوئے۔

ششیر کمار بوس اپنی کتاب ’ریممبرنگ مائی فادر‘ میں لکھتے ہیں: ’میرے والد اور میں نے یہ افواہ کو ہوا دی کہ سبھاش نے سنیاس (تارک الدنیا) لے لیا ہے۔ جب مہاتما گاندھی نے سبھاش کی گمشدگی کے بارے میں ٹیلی گرام کیا تو میرے والد نے تین الفاظ میں جواب دیا، ’سرکمسٹانسز اںڈیکیٹ ریننسی ایشن‘ (حالات ترک دنیا کی جانب اشارہ کرتے ہیں)۔

لیکن وہ اس بارے میں رابندر ناتھ ٹیگور سے جھوٹ نہیں بول پائے۔ جب ٹیگور کا ٹیلیگرام ان کے پاس آیا تو جواب دیا: ’سبھاش جہاں کہیں بھی رہیں انھیں آپ کا آشیرباد چاہیے۔‘

وائسرائے لِنلِتھگو سیخ پا

دوسری جانب جب وائسرائے لارڈ لنلتھگو کو سبھاش چندر بوس کے فرار ہونے کی خبر ملی تو وہ بنگال کے گورنر جان ہربرٹ پر شدید غصہ ہوئے۔

ہربرٹ نے اپنی وضاحت میں کہا کہ اگر سبھاش کے انڈیا سے باہر جانے کی خبر درست ہے تو ہمیں شاید بعد میں فائدہ مل جائے۔

لارڈ لنلتھگو

وائسرائے لارڈ لنلتھگو

مگر وائسرائے اس دلیل سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے برطانوی حکومت کی بدنامی ہوئی ہے۔

کلکتہ کی سپیشل برانچ کے ڈپٹی کمشنر جے وی بی جاناورن کا تجزیہ بالکل درست تھا۔

انھوں نے لکھا کہ ‘ہو سکتا ہے کہ سبھاش راہب بن گئے ہوں مگر یہ مذہبی وجوہات کے لیے نہیں بلکہ انقلاب کی منصوبہ بندی کے لیے ہے۔’

سبھاش چندر بوس کا جرمن سفارت خانے سے رابطہ

31 جنوری کو پشاور پہنچنے کے بعد رحمت خان اور ان کے بہرے رشتے دار ضیا الدین لاہوری دروازے کے قریب ایک سرائے میں ٹھہرے۔ اس دوران رحمت خان نے وہاں سوویت سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

سبھاش چندر بوس

سبھاش چندر بوس ہٹلر سے ہاتھ ملاتے ہوئے

پھر سبھاش نے خود جرمن سفارتخانے سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان سے ملنے کے بعد جرمن وزیر ہانس پلگر نے پانچ فروری کو کابل میں اپنے سفارتخانے میں جرمن وزیرِ خارجہ کو لکھا: ‘سبھاش سے ملنے کے بعد میں نے انھیں مشورہ دیا ہے کہ وہ انڈین دوستوں کے ہمرا بازار میں چھپے رہیں۔ میں نے ان کی طرف سے روسی سفیر سے رابطہ کیا ہے۔’ بوس نے سیمنز کمپنی کے ہر ٹوماس کے ذریعے جرمن قیادت سے رابطہ رکھا۔

اس دوران سبھاش چندر بوس اور رحمت خان سرائے میں خطرے کی زد میں تھے۔ ایک افغان پولیس اہلکار کو ان پر شک ہو گیا تھا۔

دونوں نے چند روپے اور بعد میں سبھاش کی سونے کی گھڑی دے کر اپنی جان بچائی۔ یہ گھڑی سبھاش کو ان کے والد نے تحفے میں دی تھی۔

اطالوی سفارت کار کے پاسپورٹ پر بوس کی تصویر

چند دن بعد سیمنز کے ہر ٹوماس کے ذریعے سبھاش کے پاس ایک خط آیا کہ اگر وہ افغانستان سے باہر نکلنے کے منصوبے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں کابل میں اٹلی کے سفیر پیترو کوارونی سے ملاقات کرنی چاہیے۔

چنانچہ 22 فروری 1941 کی رات کو بوس نے اطالوی سفیر سے ملاقات کی۔ سولہ دن بعد یعنی 10 مارچ 1941 کو اطالوی سفیر کی روسی اہلیہ نے سبھاش چندر بوس کو ایک پیغام دیا کہ سبھاش دوسرے کپڑوں میں اپنی تصویر نکلوائیں۔

سوگت بوس نے اپنی کتاب ہز میجسٹیز اپوننیٹ میں لکھا ہے کہ ‘سبھاش کی یہ تصویر ایک اطالوی سفارتکار اورلینڈو مازوتا کے پاسپورٹ پر لگا دی گئی۔’

17 مارچ کو سبھاش کو ایک اطالوی سفارت کار سینور کریسینی کے گھر منتقل کر دیا گیا۔

علی الصبح وہ ایک جرمن انجینیئر اور دو دیگر افراد کے ہمراہ وہاں سے نکل گئے۔

انھوں نے افغانستان کی سرحد پار کی، ازبکستان کے شہر سمرقند پہنچے، اور پھر وہاں سے ٹرین کے ذریعے ماسکو چلے گئے۔

وہاں سے سبھاش چندر بوس جرمنی کے دارالحکومت برلن پہنچے۔

جب سبھاش چندر بوس بحفاظت جرمنی پہنچ گئے تو ان کے بھائی شرد چند بوس بیمار رابندر ناتھ ٹیگور سے ملنے کے لیے شانتی نکیتن گئے۔

وہاں انھوں نے اس عظیم شاعر کو بوس کی انگریزی پہرے سے فرار کی خبر سنائی۔

اگست 1941 میں اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل لکھی گئی اپنی آخری کہانی ‘بدنام’ میں ٹیگور نے افغانستان کے پتھریلے راستوں پر آزادی کی تلاش میں سرگرداں ایک تنہا شخص کا دل میں اتر جانے والا خاکہ کھینچا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp