عوام کی تاریخ کون لکھتا ہے؟


پاکستان میں دانشوروں کو تاریخ نویسوں سے شکوہ ہے۔ کچھ دانشورں کا خیال ہے کہ تاریخ لکھنے والوں نے تاریخی نویسی کا فریضہ درست طریقے سے نہیں سرانجام دیا۔ انہوں نے تاریخ نویسی کا حق ادا نہیں کیا۔ ان تاریخ نویسوں نے تاریخ کو ٹھوس مادی حقائق کی روشنی کے بجائے اپنی خواہشات کے آئینے میں دیکھا۔ تاریخی واقعات کو اپنے نظریات اور خواہشات کے تناظر میں بیان کیا۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ تاریخی حقائق و واقعات سے اپنی پسند کے نتائج اخذ کیے۔ حد یہ ہے کہ بسا اوقات سرے سے من گھڑت قصے کہانیوں کو ہی تاریخ بنا کر پیش کر دیا۔ یوں ماضی کی جو تصویر ہمارے سامنے آئی، وہ تاریخی کی ایک مسخ شدہ شکل ہے۔ یہ شکوہ صرف پاکستان کے دانشوروں کو ہی پاکستان کے تاریخ نویسوں سے نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے دانشوروں کو اپنے اپنے تاریخ نویسوں سے شکوہ ہے کہ انہوں نے تاریخ نویسی سے انصاف نہیں کیا۔

بھارت میں ایک مدت سے تاریخ نویسی پر بحث جاری ہے۔ وہاں ہر سیاسی گروہ اور مکتبۂ فکر تاریخ کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہا ہے؛ چنانچہ بہت سارے دانشوروں کا خیال ہے کہ تاریخ کو اس طرح نہیں لکھا گیا، جس طرح اس کو لکھا جانا چاہیے تھا۔ کہیں مذہب کے نام پر تاریخ کو مسخ کیا گیا، کہیں علاقے اور نسل کے نام پر یہ کام ہوا‘ کہیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر تاریخ کو مسخ کرنے کا کام کیا گیا؛ چنانچہ اب وہاں کئی دانشور از سرِ نو تاریخ لکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ مغرب میں بھی تاریخ نویسی کے باب میں یہ شکایت عام رہی ہے، مگر اس میں وہ شدت نہیں، جو ہمارے ہاں ہے؛ البتہ امریکہ میں یہ مسئلہ کافی شدومد سے اٹھتا رہا ہے۔ یہاں تاریخ کو طبقاتی نقطہ نظر سے لکھنے کی بات ہوتی رہی ہے۔

کئی دانشوروں کا خیال ہے کہ تاریخ کو حکمران اشرافیہ اور غالب طبقات کے پسندیدہ نقطہ نظر سے لکھا گیا؛ چنانچہ جو تاریخ لکھی گئی وہ یک طرفہ اور جانب دارانہ ہے، غالب طبقات کے کارناموں کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، اور ان کے عیبوں پر غیر ضروری طور پر پردہ ڈالتی ہے۔ ان دانشوروں کا خیال ہے کہ تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے دیکھا اور لکھا جائے تو ہماری نئی نسل کو یہ علم ہوکہ ہمارے عوام کس قسم سے حالات سے گزرے، انہوں نے حکمرانوں کے ظلم و تشدد کا کیسے مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے حقوق کی کیا لڑائیاں لڑیں اور ملک کی سماجی و معاشی ترقی میں کیا کردار ادا کیا۔ اس قسم کے دانشوروں نے اس میدان میں کچھ عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔

اس سلسلے میں کئی جدید تاریخ نویس سامنے آئے، جنہوں نے عوامی نقطہ نظر سے تاریخ لکھی ہے۔ ان میں سے کچھ تاریخی کتب کو بہت پسند کیا گیا۔ کچھ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ہمارے ”زووم ریڈنگ روم‘‘ کے مطالعاتی سلسلے میں گزشتہ دنوں ہم نے اسی طرح کی تاریخ کی ایک کتاب پر گفتگو کی۔ اس کتاب کا نام ”ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام کی تاریخ‘‘ ہے۔ یہ ایک دلچسپ کتاب ہے۔ اس کتاب میں ہاورڈ  زن نے عام تاریخ دانوں کی طرح صرف امریکہ کے بڑے بڑے ہیروز اور اشرافیہ کے مشہور و معروف شخصیات کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ اس نے عام ڈگر سے ہٹ کر امریکی تاریخ کو استحصال زدہ، بے بس اور پسماندہ لوگوں کے تناظر سے دیکھا ہے۔

امریکی تاریخ میں بہت پیچھے جانے کے بجائے اس نے تاریخ نویسی کا آغاز کرسٹوفر کولمبس کی 1492ء میں نئی دنیا کی دریافت سے کیا‘ جس کے بعد مقامی امریکی عوام کے خلاف لوٹ مار اور ظلم و تشدد کے دل دہلا دینے والے قصے ہیں۔ یہ قصے اگلی صدی تک پھیلے ہوئے ہیں، جس کے دوران یورپی حملہ آوروں نے مقامی امریکی قبائل کا قتل عام کر کے بڑی حد تک صفایا کر دیا تھا۔ لوٹ مار کے بعد یہ لوگ بے تحاشا دولت لے کر واپس مختلف یورپی ممالک کی طرف لوٹ گئے۔

انگریز آباد کار 1600ء کے اوائل میں شمالی امریکہ آئے تھے۔ اس سرزمین پر قدم رکھتے ہی وہ مقامی امریکی قبائل کے خلاف خونیں جنگوں میں مصروف ہوگئے۔ روایتی جنگوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے وسیع پیمانے پُر تشدد اور وحشیانہ ہتھکنڈے بھی استعمال کیے۔

شمالی امریکہ میں ابتدائی نوآبادیاتی زندگی کی ایک اہم خصوصیت اور خوفناک علامت غلامی تھی۔ انگریز آباد کاروں نے امریکہ میں اپنے کام کاج کے لیے افریقہ میں ان کے گھروں سے اغوا کیے ہوئے غلاموں کو بیگار اور جبری مزدوری کے لئے استعمال کیا۔ یہ ظلم و نا انصافی صرف سیاہ فام لوگوں تک محدود نہیں تھی۔ ان یورپی آباد کاروں نے غریب اور پسے ہوئے سفید فام لوگوں کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ان میں سے بہت سوں کو قرض کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے زندگی بھر کے لیے جبری مشقت اور برسوں غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ ان غلاموں نے اپنے سفید آقاؤں کے خلاف اکثر بغاوتیں کیں۔ امریکی تاریخ ان بغاوتوں سے بھری پڑی ہے، مگر ان بغاوتوں کو اس طرح اپنے درست تناظر میں پیش نہیں کیا گیا۔ ابتدائی نوآبادیاتی امریکہ میں اشرافیہ کے سفید فام یورپی طبقات اس بات سے خوفزدہ تھے کہ سیاہ فام غلام غریب سفید فاموں سے اتحاد کرکے سفید فاموں کی نوآبادیوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس خوف کے زیر اثر حکمران اشرافیہ نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جو غریب سفید فاموں، مقامی امریکیوں اور سیاہ فام غلاموں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی تھیں۔ ان کے درمیان مصنوعی تضادات پیدا کر سکتی تھیں اور پھر ان تضادات کو ہوا دے سکتی تھیں۔ ان پالیسیوں کے تحت ان سب کو ”ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے ایک دوسرے پر نظر رکھنے اور ایک دوسرے کے خلاف مخبری کرنے کے لیے استعمال کیا گیا‘‘۔

اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ کے بانی رہنمائوں نے انگریز کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا؛ تاہم یہ بانی رہنما خاص طور پر مستقبل کے نقطہ نظر سے کوئی انقلابی نہیں تھے بلکہ وہ دولت مند اور طاقت ور لوگ تھے۔ انہوں نے اس وقت کی مخصوص صورت حال میں بیرونی دشمن یعنی برطانیہ کے خلاف محنت کش طبقات کو اپنے ساتھ جوڑ کر مزید طاقت ور بننے کا موقع دیکھا۔ انگریز کے خلاف جنگ کے دوران ہی امریکی رہنماؤں نے آزادی اور مساوات کی بات کرنی شروع کی اور یہ ایک ایسا ہتھیار ہے، جسے آج تک امریکی سیاست کار اپنے عوام پر قابو پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

سترہ سو اسّی کی دہائی میں امریکہ کے ”فائونڈنگ فادرز‘‘(بانی رہنمائوں) نے ملک کے لیے آئین تیار کیا۔ اس آئین کے تحت ایک مضبوط وفاقی حکومت تشکیل دی، تاکہ ان کی اپنی املاک اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں امریکہ ایک بڑی سامراجی طاقت بن گیا۔ اس وقت تک وہ مقامی باشندوں کے ساتھ کئی ایک معاہدے کر چکا تھا۔ ان معاہدوں کے تحت ان کی مقامی رسم و رواج اور ثقافت کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ مقامی زمینوں پر ان کا حق ملکیت تسلیم کیا گیا تھا‘ مگر ان تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں مقامی امریکیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے ایک ایک کر کے بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا۔ نوآباد کار اس کے ساتھ ساتھ جنوب مغرب میں میکسیکو کے علاقے پر قابض ہونا شروع گئے۔ (باقی آئندہ۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).