احتساب کا نعرہ لگانے والوں کا احتساب کریں


‎کیا یہ ملک لاوارث ہے؟ اس میں ہر قسم کی بدعنوانیاں اور نا اہلیاں ہوتی رہیں، بڑے بڑے سکینڈلز آتے رہے مگر کوئی بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوا اور نہ ہی کسی کو سزا ملی۔ ان سب باتوں سے قوم کو یا تو لاعلم رکھا جاتا ہے یا مک مکا ہو جاتی ہے۔

یہ کسی المیے سے کم نہیں کہ ہر دفعہ احتساب کے نام پر عوام کو خوش نما خواب دکھا کر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ نام نہاد احتساب عوام کو مصروف رکھنے کی حد تک ہوتا ہے۔ حقیقت میں ملک میں ہر کام قانون کی بجائے طاقت کے بل پر ہوتا ہے۔

‎اب براڈشیٹ سکینڈل آیا ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوامی فلاح میں استعمال کرنے کے بجائے ایک غیرملکی فرم کو دے دیا گیا ہے۔‎پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کے لیے جو نام نہاد احتساب کا ڈھنڈورا پیٹا ، اس کے لیے اس دور میں نیب نے پاکستان کے شہریوں کے دوسرے ملکوں میں چھپائے ہوئے ناجائز اثاثوں کا پتہ کرنے کے لیے ایک غیر ملکی آف شور کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس زمانے میں براڈ شیٹ ایک بالکل نومولود کمپنی تھی اور اس کی کوئی کریڈیبیلٹی نہیں تھی۔ اس کمپنی کے ذریعے بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور نواز شریف کا احتساب کرنا مقصد تھا لیکن کمپنی کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

غیر معینہ مدت کے لیے کیے ہوئے وعدے کے مطابق نیب اس سے جان بھی نہیں چھڑا سکتی تھی۔ اس کے بعد ہمیں ہرجانے ادا کرنے پڑے۔ عوام کا پیسہ احتساب کے نام پر مال مفت کی طرح براڈشیٹ کمپنی پر لٹایا گیا جس نے ہمارے لیے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ اس کے باوجود ہم نے سبق حاصل نہیں کیا بلکہ اب بھی براڈ شیٹ کا موسوی احتساب کے نام پر ہمیں خواب دکھا رہا ہے اور ہمارے ملک کی اشرافیہ میں سے کچھ افراد اب بھی اس کی مدد کرنا اور اپنے حصے کا کمیشن چاہتے ہیں۔

‎اصل احتساب تو براڈ شیٹ سکینڈل میں ملوث لوگوں کا ہونا چاہیے جن کی وجہ سے قوم کے پیسے کا ضیاع ہوا ہے۔ ایسے لوگ پوری قوم کے مجرم ہیں۔ ان کو سزا دی جائے اور اس نقصان کو ان کی جائیداد بیچ کر پورا کیا جائے۔ نوے کی دہائی سے لے کر اب تک زرداری اور نواز شریف کے بارے میں سنتے آرہے ہیں کہ وہ چور اور ڈاکو ہیں ، ان کا احتساب کیا جائے۔ کیا نیب ان کی چوری ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ہے یا یہ ہتھکنڈے نیب صرف سیاستدانوں کو بدنام کرنے اور دبانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ نیب کا ادارہ  کارکردگی دکھانے کی بجائے نااہلیاں دکھا رہا ہے۔ اس لیے اس ادارے کو ختم ہونا چاہیے۔

‎وزیراعظم کو انا کی عینک اتار کر ملکی معاملات کو عوام کی عینک سے دیکھنا چاہیے۔ ان کی طاقت عوام ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ عوامی اور پارلیمانی سیاست کریں۔ اقتدار میں آ کر وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ وہ عوام کے توقعات پر پورا اترتے، ٹیم بنا کر کام کرتے، عوام کے مسائل حل کرتے لیکن انہوں نے اس ٹیم کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے اور اپوزیشن کو چور ڈاکو کہنے کے پروپیگنڈوں میں لگا دیا۔ اڑھائی برس تک حکومتی ٹولہ یہی کرتا آیا ہے۔

‎عمران خان کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ مضبوط حکومت بنانے کے لیے ‎ایک مضبوط اپوزیشن ضروری ہوتی ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے 2014 میں جب عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے نواز شریف کی حکومت گرنے والی تھی تو اپوزیشن نے اسے سہارا دیا تھا۔

‎وزیراعظم اپوزیشن کو کچھ نہ سمجھنے کی بجائے اس کے وجود کو تسلیم کریں اور مزید اڑھائی برس کا عرصہ اپوزیشن کے ساتھ جنگ وجدل میں گزارنے کی بجائے مل کر عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ پارلیمنٹ اور سینیٹ میں ایسے قوانین پاس کروائیں جو اس ملک، قوم اور جمہوریت کے لیے بہتر ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).