تعلیمی نصاب میں اقلیتوں کی دل آزاری کا معاملہ


2020 / 21 پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور جماعت دوم کی اردو کی کتاب میں مسیحی طالب علم جوزف نامی کو عیسائی لکھنا اور اس کی شناخت کالے رنگ سے کروانا ذہنی ایذا رسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی شہری کے ساتھ محض نسل، مذہب، ذات یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیازی سلوک کرنا سراسر ایذا رسانی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی مسیحی کو عیسائی بلانا اور لکھنا منع ہے۔ جماعت دوم کے مصنفین، مدیر اور جائزہ کمیٹی کی خدمت میں عرض ہے کہ جب بھی سکول کے نابالغ بچوں کے لیے ٹیکسٹ بک لکھی جاتی ہیں تو بچوں کے ذہنی معیار، معاشرے، ملکی اور قومی ہم آہنگی کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ مواد ایسا نہ ہو جس سے بچے ذہنی طور پر نفسیاتی تناؤ کا شکار نہ ہوں۔

تعلیمی سیلبس بچوں کی ذہنی نشوونما پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے کیونکہ بچے کورے کاغذ کی مانند ہوتے ہیں جس پر جو لکھ دیا جائے وہ نقش ہو جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کلاس دوم میں دوسرے مذاہب کے بچے علم حاصل نہیں کر رہے ہوتے تو جب وہ اس طرح کا جملہ سنیں گے کہ وہ کالے رنگ کا لڑکا کون ہے تو دوسرا بچہ بتائے گا کہ وہ کالا لڑکا جوزف ہے تو اس وقت کلاس میں موجود مسیحی بچے پر کیا گزرے گی، کیا وہ ذہنی تناؤ کا شکار نہ ہو گا؟

ہماری پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور سے گزارش ہے کہ وہ جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔ اگر ہم دور حاضر میں ان کے اخلاقی اور انسانی حقوق کے سلسلے میں اقدامات کی چند بنیادی مثالوں ہی کی تقلید کر لیں تو یقین جانیں پاکستانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ غلامانہ سوچ، بنیاد پرستی اور نسل پرستی ہر مذہب اور ہر ملک میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے مگر جن ملکوں نے نسل اور بنیادی پرستی کا خاتمہ کر لیا یا اس کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور وہ ان پر کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کرتے، آج ان ملکوں نے ہر لحاظ سے ترقی کی ہے اور ان کا معاشرہ ایک مہذب معاشرہ کہلاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب انگلینڈ میں غلاموں کی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی۔ ہسٹری میں کالوں پر ظلم کی انمٹ داستانیں موجود ہیں مگر انگلینڈ نے غلامی کے عمل کو ختم کرنے کے لئے مہمات چلائیں اور ایسے قوانین بنائے کہ اب یہاں کوئی بھی کسی کو رنگ، نسل و مذہب کی بنیاد پر ہراساں نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ قانون کے مطابق سزا کا حقدار ہوتا ہے۔

درسی کتب میں کہیں بھی امتیاز نہیں ملتا جس سے کسی بھی نسل، رنگ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے کی دل آزاری ہو اور اگر انجانے میں ہی کوئی ٹیچر یا بچہ کسی کے خلاف شکایت کر دے یا کہیں امتیاز برتنے کا ثبوت مل جائے یا کم عمر بچہ ہی کسی کو کالا، گورا، موٹا کہہ دے یا اس کے مذہب کے خلاف بات کہہ دے تو بچے اور اس کے والدین کے لئے نہ صرف مصیبت بن جاتی ہے بلکہ معافی نامہ لکھنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں بچے کو سکول سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

انسانیت کا درس ہے کہ دوسرے انسان کے احساسات، مشکلات اور سوچ کو سمجھنے کر ان کا مداوا کیا جائے۔ انسانیت ہر شخص کو برابری کا حق دیتی ہے۔ ہر مرد، عورت، کمزور، طاقتور، گورے، کالے نیز ہر قسم کے انسان کو بلا امتیاز برابری دینے کا نام ہی انسانیت ہے۔ انسانیت میں غلامی کی گنجائش قطعاً نہیں۔

کئی دہائیوں سے پاکستان مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی سے دوچار ہے، اس کی روک تھام کے لئے کوئی قابل ذکر، ٹھوس اور بنیادی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سابقہ ادوار حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم و جبر کی ان گنت داستانیں رقم ہوئیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے نتیجے میں معصوم بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد آرمی نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا اور نواز حکومت نے فوجی عدالتیں اور مولویوں کے جمعہ خطبہ کی مانیٹرنگ کی اور مسجد کے سپیکر کے غلط استعمال اور اشتعال انگیز مذہبی لٹریچر پر پابندی عائد کر دی۔

آرمی کے مسلسل آپریشن اور حکمت عملی اور خدا کے فضل و کرم سے دہشت گردی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا اور پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا، مگر اس مذہبی انتہا پسندی اور تشدد پسندی کے پیچھے چھپے اصل محرک کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ تعلیمی نصاب میں ہیرا پھیری کرنا اقلیتی طلبا کے معصوم ذہنوں کے لیے سلو پوائزن کا کام کرتا رہا۔ سائنسی علم سے لے کر اردو اور انگلش ادب میں غیر مسلم کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اس پر مسلسل احتجاج ہوتا رہا۔ تین چار سالوں میں کچھ تبدیلیاں ضرور کی گئیں مگر وہ اس بڑے تعصب کو ختم کرنے میں ناکافی ثابت ہوئیں۔

تین سال پہلے پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسیحیوں کے پرزور احتجاج پر ان کے لیے لفظ عیسائی استعمال کرنے کی بجائے لفظ مسیحی استعمال کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ اس کے باوجود پنجاب ٹیکسٹ بک میں کلاس دوم کے نصاب میں عیسائی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس نصاب کے مصنفین اور مدیران اور جائزہ کمیٹی میں شامل کافی اعلیٰ یافتہ ہیں مگر کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔

مسیحی بچے کی شناخت کے لیے اس کے گلے میں صلیب کو دکھایا جا سکتا تھا جو اصل میں مسیحیت کا نشان ہے۔ مسیحیوں کے لیے کالے رنگ کی پہچان صرف انڈیا اور پاکستان میں ہی بتائی جاتی ہے۔ حالانکہ پاکستان میں ہی بہت سے مسیحی مسلمانوں سے بھی زیادہ صاف رنگ کے ہیں اور دنیا گورے مسیحیوں سے بھری پڑی ہے۔ گورا یا کالا رنگ ہونا خطے کی پہچان ہے نہ کہ مذہب کی۔ اگر ایسا ہوتا تو مڈل ایسٹ اور افریقی ممالک کے سارے مسلمان گورے ہوتے۔

اس کتاب کو سپورٹ کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ جب آپ بچوں کو ایسا سلیبس دیں گے اور ان کے کچے ذہنوں کی پرورش اس طرز پر کریں گے تو ان کا ذہن تو یہی قبول کرے گا کہ جتنے کالے ہوتے ہیں وہ سب مسیحی ہی ہوتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کالے کٹر مسلمانوں کو بھی مسیحی نہ کہنا شروع کر دیں۔

گزارش یہ ہے کہ خدارا لوگوں کے ایمان کے ساتھ کھیلنا بند کریں کیونکہ یہ عمل سراسر تعصب پر مبنی ہے۔ ہماری وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان اور صدر پاکستان جناب عارف علوی سے گزارش ہے کہ اس کتاب کو بین کریں اور اس کی انکوائری کروائیں تاکہ پھر ایسا نصاب شائع نہ ہو جس سے اقلیتوں کی دل آزاری ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).