بیگم نسیم ولی اور بشری گوہر، مفتی باچا خان یونیورسٹی میں نہیں پڑھ پائیں گی


خبروں کے مطابق باچا خان یونیورسٹی چارسدہ نے اپنے طلبا و طالبات کے لیے نیا ڈریس کوڈ لازم قرار دیا ہے۔ وائس چانسلر کی صدارت میں اکیڈمک کونسل نے ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت طالبات کے لیے سیاہ یا سفید سکارف کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی سیاہ عبایہ پہننا لازم قرار پایا ہے۔ وہ پیر میں صرف سیاہ سلیپر پہن سکتی ہیں۔ سیاہ یا سفید شلوار بھی پہننی ہو گی۔ ان کے لیے عبایہ کے نیچے پاجامہ، جینز، ٹی شرٹ، چھوٹی قمیض، اور مہین کپڑے پہننا منع ہے، مبادا کوئی مرد سپر مین کی طرح دیواروں یا موٹی عبایہ کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو ایسے کپڑے دیکھ اس کی نیت خراب نہ ہو جائے۔ یہ تحقیق نہیں ہو پایا کہ ایسا سپرمین جو عبایہ کے پار دیکھ سکتا ہو، اس کی بری نگاہ کو غیر مہین کپڑے روک پائیں گے یا نہیں۔

نیز وہ جیولری، فینسی پرس اور اونچی ہیل بھی استعمال نہیں کر سکتیں۔ یہ اچھا فیصلہ ہے، اونچی ہیل نوکدار ہوتی ہے اور اس سے چوٹ زیادہ لگتی ہے۔ میک اپ کرنا بھی منع ہے کہ کہیں طالبہ کا میک اپ اور دیکھنے والے کی نیت خراب نہ ہو۔

طلبا کے لیے سیاہ یا سفید پینٹ کے ساتھ سادی قمیض، یا صاف ستھری شلوار قمیض، گہری نیلی واسکٹ، سویٹر یا سادی جیکٹ پہننے کا حکم ہے۔ نیز وہ رنگ برنگے مفلر نہیں پہن سکتے کہ فیشن کی ذیل میں آتے ہیں۔ خبروں کے مطابق ہدایت نامے میں درج ہے کہ تمام طلبا و طالبات کو مفصل ترجمے کے ساتھ قرآن سکھایا جائے گا تاکہ وہ مبادیات دین سیکھنے کے ساتھ ساتھ سچے مبلغین اسلام بن سکیں۔

ہماری رائے میں یہ نہایت اچھے اقدامات ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ مثلاً مردانہ لباس میں پینٹ پہننے کی اجازت دینا ہماری رائے میں تو غلط ہے۔ انہیں صرف شلوار قمیض پہننی چاہیے۔ نیز شلوار بھی ٹخنوں سے اونچی ہونے کو لازم قرار نہیں دیا گیا۔ اگر طلبا اس صرف نظر سے فائدہ اٹھا کر غیر شرعی شلوار پہن کر یونیورسٹی آ گئے تو کیا ہو گا؟ کیا ان کی نماز ہو جائے گی؟

نیز طلبا و طالبات کے باقی کسی ہدایت میں یہ شرط نہیں ہے کہ ان کا لباس صاف ستھرا ہو، صرف مردانہ شلوار قمیض کے صاف ستھرا ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ خیر اس کی رخصت دے دیتے ہیں کہ طالبات گندے سندے بدبودار شلوار قمیض اور عبایہ پہن کر آ جائیں، مگر کم از کم لڑکوں کے لیے تو یہ لازم قرار پانا چاہیے کہ ان کے انڈر ویئر اور جرابیں صاف ہوں کہ ان کی بو زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ بلکہ ان دو کی صفائی یقینی بنانے کے لیے یونیورسٹی کو انسپیکشن کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔

اسی طرح طالبات کے معاملے میں اتنی کھکھیڑ کرنے کی بجائے اگر صرف یہ قرار دے دیا جاتا کہ باقی جو کچھ بھی پہنیں، لیکن اوپر شٹل کاک سٹائل کا افغانی برقع لازم ہو، تو میک اپ، مہین و دبیز لباس، پاجامے، شلوار، وغیرہ کی شرائط عائد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ عبایہ کے ساتھ چہرہ دکھائی دے سکتا ہے۔ اگر کسی طالبہ کے گال ویسے ہی سرخ و سفید ہوں تو کیسے تحقیق ہو پائے گا کہ یہ سرخی قدرتی ہے یا میک اپ کیا ہے؟ کیا انسپیکشن کمیٹی طالبات کے گال پکڑ پکڑ کر چیک کرے گی؟ شٹل کاک برقع کی صورت میں خواہ طالبہ میڈم نور جہاں جیسا میک اپ کر آئے، کسی ضرر کا اندیشہ نہیں، اپنے پیسے ہی پھینکے گی۔

بہرحال جہاں باچا خان یونیورسٹی کا باقی سب کچھ تبدیل کر کے اسے مشرف بہ اسلام کیا جا رہا ہے، تو ہماری رائے میں اس کے نام پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ بہتر ہے کہ اس کا نام مفتی باچا خان یونیورسٹی رکھ دیا جائے تاکہ داخلہ لیتے ہوئے ہی طلبا و طالبات کو علم ہو کہ وہ کہاں پڑھنے جا رہے ہیں، کیا پڑھنے جا رہے ہیں اور کس سے پڑھنے جا رہے ہیں۔

اس موقعے پر ایک چیز خاص طور پر نوٹ کرنے کے قابل ہے۔ اس ڈریس کوڈ کی موجودگی میں اے این پی بلکہ صوبے میں مور بی بی (ماں) کے نام سے جانے جانی والی باچا خان کی بہو بیگم نسیم ولی خان اور کچھ عرصے قبل تک باچا خان کی پارٹی اے این پی کی سینئیر نائب صدر بشریٰ گوہر اس یونیورسٹی میں نہیں پڑھ پائیں گی۔ ان کا ڈریس کوڈ کچھ مختلف ہوتا ہے۔

جس لباس کو پہن کر بیگم نسیم ولی خان اور بشریٰ گوہر نے صوبے بلکہ ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور ڈکٹیٹروں کے خلاف مزاحمت کی، وہ اب باچا خان یونیورسٹی میں خلاف قانون قرار پایا ہے۔ اب یہاں سے سمیحہ راحیل قاضی جیسی طالبات ہی نکلیں گی، بیگم نسیم ولی اور بشریٰ گوہر جیسی نہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar