مخلوط تعلیم اور بغیر نکاح تعلقات


اسلامی ممالک میں لڑکے لڑکی کے غیرشادی شدہ تعلق کو قانونی اور معاشرتی طور پر ناجائز ماناجاتا ہے۔ یورپی ممالک میں نکاح یا شادی کے بغیر جوڑوں کے اکٹھے رہنے میں قباحت نہیں ہے۔ عرب امارات، ترکی، بھارت، شام، مصر، لبنان اور دیگر ممالک جو جدیدیت کی دوڑ میں اس طرح کی آزادیوں پر قدغن نہیں لگارہے۔ اگر کہیں قانوناً قدغن ہے بھی تو عملاً قدغن نہیں۔

پاکستان مغربی آزادی کے تصورات کو اپنانے میں عرب ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ یہاں ابھی بھی قانونی اور معاشرتی طور پر غیرشادی شدہ مرد و عورت کا اکٹھے رہنا ناجائز اور قابل مواخذہ جرم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے بڑے شہریوں میں ایسا ممکن ہے کہ نکاح کے بغیر مرد و عورت اکھٹے رہ سکیں۔ مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے نوجوانوں کو مواقع فراہم ہونا یقینی ہے کہ وہ شادی کے بغیر یا شادی سے قبل Live in Relationship میں ہوں۔

گزشتہ ہفتے لاہور میں میڈیکل کی ایک طالبہ کی abortion کے دوران موت واقع ہو گئی۔ جس سے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھی طالب علم کے ساتھ رہ رہی تھی اور کچھ ماہ سے حاملہ تھی۔

عورت کی خوبی اور خامی یہ ہے کہ وفا میں اندھی ہوتی ہے، جس پر یقین کرتی ہے، اپنا سب کچھ اس کے سپرد کردیتی ہے جس سے محبت کرتی ہے۔ مردوں کا معاملہ دوسرا ہے، اگرچہ مرد سنجیدہ بھی ہوتے ہیں لیکن ایسا طبقہ بھی موجود ہوتا ہے جو عورت کو محبت کے نام پر استعمال کرتا ہے اور ضرورت پوری ہونے پر راستہ جدا کرلیتے ہیں۔

ایسے حالات کے پیش نظر والدین اور حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس طرح نوجوانوں کی زندگیوں کو ضائع ہونے یا صدمات سے بچاسکتے ہیں۔ مخلوط نظام تعلیم کے بہت سے نتائج ہیں جن میں سے ایک live in Relationship بھی ہے، اگر پاکستان جیسے اسلامی ملک میں مخلوط تعلیم جاری رکھنی ہے تو پھر اس کے مفسد نتائج کا بھی ہمیں سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ آج بھی مخلوط تعلیم کے خلاف ہے۔ وہ چاہتاہے کہ خواتین کے لیے الگ سے تعلیمی ادارے موجود ہونے چاہیں۔ ان کی اس ضرورت کے پیش نظر اور اسلامی نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے، تحصیل کی سطح پر خواتین کی یونیورسٹیز قائم کی جا سکتی ہیں۔ گورنمنٹ کالجز برائے خواتین کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی / گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنا دیا جائے۔ اس اقدام سے دو فائدے ہوں گے۔ خواتین کو ان کے گھر پاس ہائر ایجوکیشن ملے گی۔ یعنی انہیں اقامتی جامعات میں گھروں سے باہر نہیں رہنا پڑے گا۔ دوسرا فائدہ ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو مخلوط تعلیم کے مفاسد سے بچنا چاہتے ہیں۔

والدین کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اپنے بچوں کے لیے مخلوط تعلیمی نظام کا انتخاب کرتے ہیں تو انہیں اس کلچر کے مطابق اپنے ذہنوں کو کشادہ کرنا ہوگا۔ نوجوان مردوعورت اگر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو تعلیم کے مکمل ہونے کا انتظار نہ کیا جائے انہیں رشتہ میں باندھ دیا جائے تاکہ وہ ازدواجی زندگی کا جائز سفر شروع کرسکیں۔ اس سلسلہ میں بدلتے رجحانات کو بھی سامنے رکھا جائے۔ برابری تعلیم میں دیکھی جائے اور ذات پات کے نظام کو درمیان میں لاکر ایسی رکاوٹیں پیدا نہ کی جائیں کہ نوجوان ناجائز رشتہ سے ساتھ رہ رہے ہوں یا کورٹ میرج کی طرف جائیں۔ ایک ڈاکٹر کے لیے ایک ڈاکٹر سے شادی کرنا زیادہ موزوں ہے۔

جہاں تک مخلوط تعلیم کی بات ہے، جاری رکھیں مگر صرف خواتین کے لیے بھی ادارے ہونے چاہئیں، جو اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں پڑھانا چاہئیں، آئین کے مطابق اسلامی تقاضوں کے مطابق ماحول مہیا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).