کسان احتجاج: وجوہات اور جنوبی ایشیا کی زراعت پر اثرات


بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں نے اقتدار کی علامت سمجھے جانے والے لال قلعہ پر اپنے جھنڈے لہرا دیے۔ اس واقعہ کو پاکستانی میڈیا نے بھی سرخیوں میں جگہ دی لیکن اس کی وجوہات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں طرف کسان سب سے مظلوم طبقہ ہے جسے ہر حکومت میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہی سمجھتے ہوئے دو ماہ قبل مودی سرکار نے کسانوں کی مرضی کے خلاف تین آرڈیننس پاس کیے جس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔

کہنے کو یہ آرڈیننس کسان کے مارکیٹنگ کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں لیکن کسانوں نے مستقبل کے خدشات کے پیش نظر احتجاج کے لیے دہلی کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ حکومت نے کسانوں کے مسائل سن کر ان سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے کسان رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع کر دیں۔ کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے ان کے راستے میں کنٹینر لگائے گئے اور اتر پردیش پولیس نے تو نیشنل ہائی وے ہی کھود ڈالا۔ اس کے باوجود ملک بھر سے لاکھوں کسان تمام مشکلات عبور کر کے دہلی پہنچ گئے لیکن انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔

دو ماہ تک کسانوں نے دہلی کے گردونواح میں سخت سردی اور بارشوں میں اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ایک سو سے زائد کسان موسمی شدت کی وجہ سے ہلاک ہو گئے لیکن مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک لاکھ ٹریکٹر دہلی میں داخل ہوئے اور مشتعل کسان لال قلعہ پر چڑھ دوڑے۔

عام آدمی سمجھ نہیں پا رہا کہ ان آرڈیننسز میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے بھارتی کسان مشتعل ہو گئے۔ ان آرڈیننسز کے تحت اے پی ایم سی یعنی زرعی منڈیوں کو ختم کر کے کنٹریکٹ فارمنگ اور فری مارکیٹ کو فروغ دیا جائے گا۔ عام طور پر بڑے کاروباری ادارے اور کمپنیاں خام مال ٹریڈرز اور مڈل مین سے خریدتے ہیں لیکن اس آرڈیننس کے بعد کسان مڈل مین کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا اور اپنا مال براہ راست برانڈز اور کاروباری کمپنیوں کو بیچ سکے گا۔ مثال کے طور پر اگر نیسلے کو جوس بنانے کے لیے آموں کی ضرورت ہے تو وہ آم پیدا کرنے والے کسان سے براہ راست معاہدہ کرے گا جس کے باعث مڈل مین کی جیب میں جانے والا پیسہ بھی کسان کو منافع کی صورت میں ملے گا۔

کاغذی کارروائی میں یہ آرڈیننس کسان کے لیے بہت فائدہ مند معلوم ہوتا ہے لیکن کسانوں کے اس پر کئی تحفظات ہیں۔ چونکہ 85 فیصد سے زیادہ چھوٹے کسان ہیں جنہیں مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے ، اس لیے وہ بڑی کمپنیوں سے سودے بازی میں مات کھا جائیں گے۔ اس نظام کے حق میں سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ مڈل مین کے چنگل سے کسانوں کو آزادی مل جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی کاروباری کمپنیوں تک براہ راست کسانوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے عام منڈیوں کے مڈل مین وہاں سے اٹھ کر اس سسٹم میں آ جائیں گے اور کسانوں کا استحصال جاری رہے گا۔

حال ہی میں گجرات میں پیپسی کمپنی نے کسانوں کے خلاف ہرجانے کا کیس دائر کیا ہے ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بڑی کاروباری کمپنیاں کسانوں کو ان کا حق نہیں دیں گی تو چھوٹے کسان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کی مارکیٹنگ میں میں کم تر امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو نقصان کا خدشہ زیادہ ہے۔

ہریانہ میں اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو کاروباری مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ زرعی منڈیوں (اے پی ایم سی) میں پرائس ڈسکوری ہوتی تھی یعنی زرعی اجناس خریدنے کے لیے بولی لگتی تھی اور کسان کو جہاں سب سے زیادہ ریٹ ملتا تھا ، وہ اپنی پیداوار وہاں فروخت کردیتا تھا۔ لیکن نئے قانون کے تحت کانٹریکٹر کو قیمت متعین کرنے کا مکمل حق حاصل ہو گا جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ مستقبل میں اپنی من مانیاں کر سکتا ہے۔

چونکہ یہ نظام فری مارکیٹ کے تصور پر ہے ، اس لیے حکومت کی طرف سے اس میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی فنڈز جاری کیے جائیں گی۔ اس لیے ممکن ہے کہ شروع میں اس نظام کے تحت کسان کو فائدہ ہو لیکن یہ سسٹم دیرپا نہیں ہے کیوں کہ کاروباری طبقہ ہمیشہ اپنے پرافٹ مارجن کو کسانوں پر ترجیح دے گا۔

کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اے پی ایم سی کو ختم نہ کیا جائے بلکہ اس کو ریگولیٹ کرتے ہوئے ڈیجٹلائز کیا جائے تاکہ آن لائن منڈیوں میں کارٹلائزیشن کا سدباب کیا جا سکے اور کسانوں کا استحصال کم سے کم ہو۔ کانٹریکٹ فارمنگ کو فروغ دینا اگرچہ برا نہیں ہے لیکن کسانوں کو اس میں کم تر امدادی قیمت (ایم ایس پی) دی جائے تاکہ بمپر پیداوار ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔

پاکستان اور بھارت کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے ، اس لیے دونوں حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر معیشت بچانی ہے تو کسان کو ان کی محنت کی بہترین قیمت دینا ہو گی۔ سرحد کے دونوں طرف کسانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل نے انہیں احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ لاہور میں بھی کسانوں نے کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، زرعی بلز اور زرعی اجناس کی مناسب قیمتوں کے حصول کے لیے احتجاج کیا لیکن حکومت کی طرف سے اس پرامن احتجاج کو دبادیا اور کسان بری طرح ناکام رہے۔

بھارت میں کسان احتجاج کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے عام لوگوں، بالی وڈ سٹارز، کھلاڑیوں اور کاروباری افراد نے بھی کسان احتجاج کا ساتھ دیا۔ دلجیت دوسانج، گپی گریوال، گریٹ کالی نے خود کسان احتجاج میں شرکت کی تو دوسری طرف ہربھجن سنگھ، پریانکا چوپڑا، پریتی زنٹا نے ٹویٹر پر کسانوں کے لیے آواز اٹھائی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کسان احتجاج کو توجہ مل رہی ہے، جہاں کینیڈین وزیراعظم نے کسان احتجاج کے حق میں بیان دیا وہیں امریکہ اور آسٹریلیا کے کئی سیاستدان بھی کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی طرح عام لوگوں کو احساس نہیں کہ کسان اس ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔ جتنی رقم کسان چھ ماہ کی فصل سے اٹھاتا ہے وہ ڈاکٹر کی ایک ماہ کی تنخواہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹرز آئے دن احتجاج کرتے ہیں، انہیں بھرپور کوریج بھی ملتی ہے اور ان کے مطالبات بھی فوری طور پر مانے جاتے ہیں۔ قصور ہمارے کسانوں کا بھی ہے جنہیں اپنی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اگر ٹویٹر پر روزانہ گھٹیا سیاسی ٹرینڈ چل سکتے ہیں تو سماجی مسائل پر کیوں نہیں۔

اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کسانوں میں لیڈرشپ کا فقدان ہے، جو کسان تنظیمیں اور رہنما سرگرم ہیں ، وہ بھی ذاتی مفاد حاصل کر کے کسانوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہمارے کسان نے آگے بڑھنا ہے تو اسے اپنے مسائل پر بات کرنا ہو گی۔ اور اگر معاشرے نے ترقی کرنی ہے تو اسے کسان کا ساتھ دینا ہو گا۔ کیوں کہ کسان کی ترقی میں ہی پاکستان کی ترقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).