پاکستان میں طبی عملے کو کرونا ویکسین لگانے کی تیاری، خصوصی مراکز قائم


پاکستان میں اِن دِنوں کرونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی اور طریقہ کار کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ویکسین لگانے کے لیے حکمتِ عملی کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے۔

بدھ کی شب این سی او سی کے اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ پاکستان بھر میں ویکسی نیشن کے لیے مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں پر ویکیسن لگانے کے لیے تعینات طبی عملے کی تربیت کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ ویکسین لگانے کی حکمتِ عملی تمام صوبوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد مرتب کی گئی ہے جس میں عالمی معیار اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے گا۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات اسد عمر نے آگاہ کیا کہ ‏پاکستان میں کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کا آغاز اگلے ہفتے سے کر دیا جائے گا۔ جس کے لیے تمام منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے سے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو کرونا وائرس کی ویکسی نیشن لگائی جائے گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ملک میں سیکڑوں ویکسی نیشن مراکز سے کرونا وائرس کی ویکسین لگائی جائے گی۔

ان کے مطابق آئندہ ہفتے سے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کی ویکسی نیشن شروع ہو گی جس کا نظام قائم کر دیا گیا ہے۔

پاکستان میں لگنے والی کرونا ویکسین کتنی محفوظ ہے؟

خیال رہے چین نے اپنی تیار کردہ ویکسین ‘سائنو فارم’ کی پانچ لاکھ خوراکیں (ڈوزز) پاکستان کو مفت دینے کا اعلان کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق چین سے ویکسین کی پہلی کھیپ ہفتے کو پاکستان پہنچے گی جس کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں کہ عالمی وبا سے بچاؤ کے لیے ویکسین لگانے کی حکمتِ عملی کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ کرونا وائرس کی ویکسین پاکستان میں سب سے پہلے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو لگائی جائے گی جس کے بعد یہ ویکسین اور 65 برس سے زائد عمر کے افراد کے لیے دستیاب ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ چار لاکھ سے زائد ہیلتھ کیئر ورکرز ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ اِس میں ویکسی نیشن کو بہتر اور منظم طریقے سے فراہم کرنے کے لیے ایک سافٹ ویئر بنا لیا گیا ہے۔ جس کی تربیت اور ٹیسٹینگ بھی ہو چکی ہے۔

ان کے مطابق اگلے چند دِنوں میں اِس ایپ کا استعمال سامنے آئے گا۔ چین کی حکومت نے کرونا وائرس کی ویکسی کی پہلی کھیپ جو کہ پانچ لاکھ ویکسین پر مشتمل ہے، پاکستان کو عطیہ کی ہے۔

پاکستان میں اب تک دو کرونا ویکسین کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جن میں آکسفرڈ کی ایسٹرازینیکا اور چین کی سائنوفارم شامل ہیں۔

حکام کے مطابق منظور شدہ ویکسین کی افادیت، معیار اور محفوظ ہونے کے طریقۂ کار کا ہر تین ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔

کرونا ایڈوائزی گروپ پنجاب کی رکن ڈاکٹر صومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ کسی بھی مرض کی ویکسین ملک کی کم از کم 70 فی صد آبادی کو لگتی ہے تو وہاں اُس بیماری کے خلاف لوگوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہوتی ہے اور اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے بتایا کہ پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے کم از کم 60 فی صد لوگوں کو وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے تو لوگوں میں اِس بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو گی۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کو اُس کی ضرورت کے مطابق پہلے مرحلے میں ویکسین نہیں مل رہی۔ کیوں کہ اُس کی طلب بہت زیادہ ہے۔ ایسے ممالک جو کرونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں وہاں اِس کی ویکسین پہلے مہیا کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پہلے مرحلے میں دستیاب ویکسین ہیلتھ کیئر ورکرز کو لگے گی جس کے بعد 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو لگائی جائے گی۔

کرونا کچھ لوگوں کو کم اور کچھ کو زیادہ متاثر کیوں کرتا ہے؟

اُن کے بقول اِسی حساب سے اسپتالوں سے ہیلتھ کیئر ورکرز کے اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چین سے ویکسین آئے گی۔ سائنوفارم سے بات چل رہی تھی۔ آکسفرڈ کی ویکسین خریدنے کے لیے ابھی تک حکومت نے انتظامات نہیں کیے۔ جس کا حتمی فیصلہ وفاقی حکومت کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ نے ابھی تک جن ویکسینز کی منظوری دی ہے ان میں سائنو فارم اور ایسٹرازینیکا شامل ہیں اور جس ویکسین کی آزمائش جاری ہے وہ ‘کین سینو’ ویکسین ہے۔

صومیہ اقتدار نے کہا کہ پاکستان نے جن ویکسینز کی منظوری دی ہے انہیں ریفریجریٹر کے درجۂ حرارت پر رکھا جا سکتا ہے۔ ان کو باآسانی دیگر مقامات پر منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔ البتہ فائزر اور موڈرنا کی ویکسین کو زیادہ سرد درجۂ حرارت پر محفوظ کیا جاتا ہے۔ پاکستان نہ تو ابھی اُسے خریدنا چاہتا ہے نہ ہی یہاں ان کا محفوط رکھنے کا نظام موجود ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اس وقت برطانیہ اور چین کی تیار کردہ کرونا ویکسین کی ہنگامی استعمال کی منظوری دی جا چکی ہے۔ تاہم ویکسین کا حصول ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

دوسری جانب روس کی تیار کردہ ویکسین ‘اسپتنک-فائیو’ کی پاکستان میں رجسٹرڈ کرنے کی بھی بات چیت جاری ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa