انداز سفارش


ہمارے ہاں سفارش کی سینکڑوں قسمیں ہیں۔ بے شمار انداز ہیں۔ کچھ لوگ سفارش کروانے کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ اپنے گھر سے باہر جانے کے لیے بھی کوئی سفارش ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں حالانکہ بعض اوقات اس کی ضرورت نہیں بھی ہوتی۔ سفارش ایسے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے۔ ”بندہ ڈھونڈ لیا ہے“ ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے۔ ہر ادارے ہر محکمے کے ’بندے‘ انہوں نے ڈھونڈ رکھے ہوتے ہیں۔ سفارش کے بغیر کسی کام کا ہونا ان کے تصور سے باہر ہوتا ہے۔

کبھی زندگی میں ان کا کوئی کام سفارش کے بغیر ہو جائے تو انہیں یقین نہیں آتا۔ وہ گھبرا جاتے ہیں کہ یہ ضرور کوئی بڑا چکر ہو گا۔ ایسے میں ان کی کیفیت ”ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“ والی ہوتی ہے۔ ایسی پریشان کن صورت حال میں وہ کوئی اور بھی بڑی سفارش ڈھونڈتے ہیں جو انہیں یہ تسلی کرواتی ہے کہ ان کا کام واقعی ہو گیا ہے۔ اس تسلی کے بعد وہ مطمئن تو ہو جاتے ہیں لیکن انہیں اطمینان کا وہ درجہ نصیب نہیں ہو تا جو سفارش کی صورت میں کام ہونے پر ہو سکتا تھا۔

یاسر صاحب میرے ایک پولیس افسر دوست ہیں ان کا تعلق ٹھیٹھ دیہاتی علاقے سے ہے۔ چنانچہ دیہاتی دوست احباب کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جو انہیں روزانہ کسی نا کسی کام کے لیے فون کرتی رہتی ہے۔ ان کے والد صاحب نے کہا ہوا ہے کہ بیٹا ان لوگوں کو کسی کام کے لیے نہ نہیں کہنا کیونکہ ان کی دعاؤں سے آپ یہاں پہنچے ہیں۔ ان دیہاتی بھائیوں میں سب سے خطرناک وہ لوگ ہیں جو آئے دن کسی انتہائی معمولی سے کام کے لیے گاؤں سے میرے دوست کو فون کرتے ہیں کہ آپ سے کام پڑ گیا ہے لہذا ہم آپ کے پاس آ رہے ہیں۔

اور پھر شام تک وہ لوگ گاڑی بھر کر یاسر صاحب کے ہاں تشریف لے آتے ہیں اور پھر کام ہونے تک احتیاطاً ان کے پاس ہی قیام پذیر رہتے ہیں۔ اس دوران میرا دوست ان کی خدمت کے علاوہ مسلسل یہ سوچتا رہتا ہے کہ کاش وہ ان مہربان ہستیوں کی دعاؤں کے بغیر ہی اس مقام پر پہنچ جاتا۔

کچھ عرصہ پہلے یاسر صاحب کے والد محترم کے ایک قریبی دوست چاچے منشے کا کسی نے پرس چھین لیا۔ پرس میں چاچے کے بقول کوئی دو اڑھائی ہزار روپے کی خطیر رقم بھی موجود تھی۔
چاچے منشے نے بجائے 15 پر کال کرنے کے سیدھی اپنے بھتیجے یعنی یاسر صاحب سے بات کی اور واردات کے بارے میں مختصر بتانے کے بعد کہا کہ میں شام کو آپ کے پاس شہر آ رہا ہوں باقی تفصیل سے بات ادھر پہنچ کر ہی ہو گی۔ دوست نے بڑا کہا کہ میں تھانے بات کر لیتا ہوں آپ وہاں پہنچ کر پرچہ کروائیں اور پھر اس کو فالو کر لیں گے لیکن چاچا جی بضد تھے کہ اتنی بڑی واردات کے بعد آپ سے ملاقات ضروری ہے۔ اور پھر شام کو چاچے منشے نے گاڑی پکڑی، گھر کے تین چار افراد کو ساتھ لیا اور دوست کے پاس شہر آ گیا۔ یاسر صاحب کی اس گروہ سے جب ملاقات ہوئی اور اسے ان کے عزائم کا پتہ چلا تو اسے لگا جیسے اس کا اپنا پرس چھین لیا گیا ہو۔

یہی دوست بتاتے ہیں کہ سفارش کے شوقین بعض احباب باقاعدہ گمراہ کرتے ہیں مثلاً آپ کو بتائیں گے کہ ایک بے حد مظلوم و معصوم لڑکا پولیس نے دھر لیا ہے پلیز سفارش کر دیجئے۔ پھر آپ جب فون کریں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ ”معصوم“ صاحب ایک انتہائی اعلیٰ پائے کے ڈکیت ہیں اور اب تک کوئی دو چار ڈکیتیوں کا برآمدگی سمیت اعتراف کر چکے ہیں۔

سفارش کے حوالے سے سب سے خوبصورت وہ لوگ ہیں جو حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ کوئی سفارش نہ کروانی پڑے۔ یہ لوگ مجبوراً آپ کو فون کریں گے بھی تو کہیں گے کہ میں فلاں افسر کے پاس جا رہا ہوں اگر آپ کی ضرورت پڑی تو میں آپ کی بات کروا دوں گا اور پھر جب ان کا کام خود بخود ہو جاتا ہے تو وہ نا صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ اس سفارش کے لیے آپ کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں جو آپ نے کی ہی نہیں ہوتی۔

سفارش کے شوقین حضرات مختلف محکموں کے افسران کے وزیٹنگ کارڈ اپنے پاس جمع کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کی جیب اور بٹوے وغیرہ میں سب سے زیادہ وزن انہی کارڈز کا ہی ہوتا ہے۔ کارڈز سفارش کا نعم البدل تو نہیں لیکن بعض اوقات ان سے بھی خوب کام چل جاتا ہے۔ آج کل وزیٹنگ کارڈ کا رجحان اگرچہ کچھ ماند پڑ رہا ہے مگر اب بھی کئی حضرات کی جیب میں بلا مبالغہ درجنوں ایسے کارڈز موجود ہوتے ہیں۔ اور اب بھی کئی دیہاتی علاقوں کے رہائشی ایسے ہیں کہ جن کے پاس اگر کسی افسر کا کارڈ موجود ہو تو وہ آس پاس سفر کرتے ہوئے خود کو قدرے زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب خود وہ افسر ایسے حضرات کو کارڈ دینے کے بعد اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔

افسران دوست بتاتے ہیں کہ کئی اجنبی حضرات جو ملنے کے باوجود اجنبی ہی رہتے ہیں پہلی ملاقات میں ہی ان سے وزیٹنگ کارڈ مانگ لیتے ہیں اور پھر جیسے آپ غلطی سے کسی شاپنگ سٹور پر اپنا نمبر دے آئیں تو وہ آپ کو ہر ہفتے ان کے ہاں لگی سیل کا میسیج بھیجتے رہتے ہیں اسی طرح یہ صاحبان بھی انہیں ہر دوسرے دن کسی چھوٹے بڑے کام کی سفارش کرتے رہتے ہیں۔ وزیٹنگ کارڈ کے حوالے سے بعض اوقات بڑی دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے مثلاً ایک آدھ بار سننے میں آیا ہے کہ جو وزیٹنگ کارڈ بطور سفارش کسی افسر کے پیش کیا گیا وہ کارڈ دراصل اسی افسر کا ہی تھا جو نجانے کیسے گھومتا گھماتا واپس اسی کے پاس آ گیا۔

سفارش کروانے والوں میں ایک قسم باقاعدہ تخریب کاروں پر مشتمل ہوتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کو فون پر بتائیں گے کہ میں کسی کام کے لیے فلاں افسر کے پاس گیا اور اس کے سامنے سفارش کے طور پر آپ کا نام لیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا میں نے اسے کہا کہ آپ کام نہ کریں لیکن میرے مہربان افسر کو گالیاں تو نہ دیں تو اس پر اس نے آپ کے خلاف اور بھی بدکلامی کی۔ یہ وہ ”باکمال“ لوگ ہیں جو اپنے کسی معمولی سے کام کے بدلے میں افسران کے بیچ اچھی خاصی لڑائی ڈلوا کے بیٹھ جاتے ہیں۔

بعض حضرات صرف اور صرف سفارش کے لیے فون کرتے ہیں بے شک دو سال بعد ہی کریں۔ پھر پہلے دس منٹ اس بات کی وضاحت کریں گے کہ وہ ان دو سالوں میں آپ کو فون کیوں نہیں کرسکے اور آخر میں اصلی بات یعنی سفارش کی طرف آئیں گے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد اگلے دو سالوں کے لیے پھر غائب ہو جائیں گے۔

ذاتی طور پر میں سفارش کے سخت خلاف ہوں۔ اور اس حق میں ہوں کہ میرٹ ہونا چاہیے۔ سفارش کلچر کے خاتمے کے ضمن میں میں اپنا نقطہ نظر جلد ہی اعلیٰ حکام سے مل کر ان تک پہنچانا چاہتا ہوں لیکن مجھے پتہ چلا ہے کہ اعلیٰ حکام سے ملاقات کے لیے بھی کوئی بڑی تگڑی سفارش چاہیے۔ چنانچہ آج کل میں اسی سفارش کی تلاش میں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).