کورونا وائرس: غیب سے انتباہی سرزنش


کوئی مانے یا نہ مانے، یہ نظام کائنات کسی خود کار عمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ اپنی جگہ یہ ایسی تخلیق کاری اور سوچی سمجھی حکمت اندیشی کا کرشمہ ہے جس کے پیچھے مطلق قوت کا دست قدرت کچھ ایسی سکیم کے تحت کارفرما رکھ چھوڑا گیا کہ بظاہر یہ سب کچھ خود کاری پر استوار ہونے یا نہ ہونے کا سوالیہ نشان بن کر حتمی حق رسائی کی جانب خود بخود دعوت آزمائش دیتا دکھائی دیتا رہے۔ ایسا شاید اس لیے دانستہ دکھایا گیا کہ خالق مطلق کو اپنا دست قدرت غیب میں رہ کر منوانا مطلوب تھا، برہنہ حقیقت کے طور پر منوانا شاید اسے ہرگز گوارا نہ تھا۔

یہی وجہ نظر آتی ہے کہ نظام کائنات کے اندر اس نے نظام حیات جب تخلیق کیا، تو اس نظام پر عمل داری کا منصب خلافت یا نیابت جنوں یا فرشتوں کو نہیں بلکہ اس کی بجائے انسان کو سونپا۔ خلافت یا نیابت اپنی جگہ عارضی یا جزو وقتی اتھارٹی کا جواز لیے ہوئے ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایسا قائم مقام مقرر ہوتا ہے جو اصل اور مقتدر فرمانروا کے کہیں غائب ہونے کی وجہ سے اس کی جگہ خانہ پری کے طور پر علامتی موجودگی کا مظہر بنتا ہے۔

انسان خطہ زمین پر پوری کائنات میں واحد ایسا وجود ہے جو شعور اور اختیار سے متصف ہے لیکن اس کے شعور اور اختیار کی مشاہداتی و تحقیقی رسائی فرشتوں اور جنوں کی طرح نہیں، جنہیں عالم غیب میں تانک جھانک کی طبیعاتی دسترس کا کوئی نہ کوئی حصہ حاصل ہے۔ اس لیے وہ اگر عالم غیب کی قبولیت یا اس کا انکار کر بھی ڈالیں تو ان پر جزا و سزا کا پیمانہ ان کی اپنی اپنی جبلت کار کی حدود سے جانچا جائے گا، جبکہ انسان اگر عالم غیب کی قبولیت یا انکار کرے گا تو اس پر جزا و سزا کا پیمانہ اس کو دیے گئے شعور اور اختیار کی حدود سے متعین کیا جائے گا۔ انسان کے لیے ضابطہ حیات عالم غیب کے ایوانوں سے انبیاء، پیغمبروں اور رسولوں پر نازل ہوا تاکہ وہ نزول حق کہہ سنائیں، آگے کسی کی مرضی یا اختیار کہ وہ ایمان لائے یا کفر اپنائے۔

انسانی شعور سے مراد وہ استعداد ادراک ہے جو انسان کے عقلی یا منطقی اعتبار سے اس کے حیطہ رسائی کو اجاگر کرتی ہے اور جس کا محرک وہ شک ہوتا ہے جو اس کے ظن و گمان یعنی عقلی اور منطقی حیطہ ادراک کو گرماتا ہے کہ اس کے سامنے جو عالم ظواہرات و کیفیات ہر سو بپا ہے ، اس کے معنی کیا ہیں؟ اپنے اس شک کو دور کرنے کے لیے جب وہ کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے تو ایسا نتیجہ اپنی جگہ جو معنی اخذ کرتا ہے ، وہ علم سے موسوم ہوتا ہے جسے عرف عام میں نظریہ، فلسفہ یا سائنس ہونے کا درجہ دیا جاتا ہے۔

اس قسم کا منطقی یا عقلی علم ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتا ہے، جس سے آگے عالم غیب کا وہ باب آ جاتا ہے جو انسانی حیطۂ ادراک کے لئے قطعی سینسرڈ یا جلوؤں کی عمیق چادروں کے پیچھے ڈھانپا اور ڈھکا ہوا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس باب سے آگے وہ عالم غیب شروع ہوتا ہے جو موت کے بعد جا کر کھلتا ہے اور جسے ماننے یا قبول کرنے کا نام عقیدت یا ایمان رکھا گیا ہے۔ فرشتوں، جنوں کی بجائے انسان اس لیے منصب خلافت یا نیابت کے میرٹ سے شرف یاب قرار پایا کہ فرشتوں کا ایمان یا ان کا عقیدہ برہنہ حقیقتوں کے باعث لیا گیا ہوتا ہے۔

جنوں کا ایمان یا عقیدہ ان کی جبلت کار کی طبعی دسترس پر مبنی طبیعاتی حقیقتوں کے باعث لیا گیا ہوتا ہے، جبکہ انسان کا ایمان یا عقیدہ غیر برہنہ حقیقتوں کی معلومات پر یقین ہونے کے باعث لیا گیا ہوتا ہے۔ انسان کو زمین پر نظام حیات کی عمل داری کا منصب خلافت یا نیابت اسی لیے سونپا گیا کہ وہ غیبی ضابطۂ حیات کو ماننے اور منوانے میں اپنے عقلی یا منطقی شعور اور عقیدے یا ایمانی اختیار سے متصف ہے۔ اس لیے ضابطۂ حیات کسی دستور یا قوانین کی عمل داری سے مشروط ہو گا۔ جنوں، درندوں یا مگرمچھوں جیسی ہیبت ناک جبلتوں کی حامل قوتوں اور طاقتوں کو اس لیے خلافت ارضی کا منصب نہ دے کر منوایا گیا کہ جبلت قانون کی طاقت سے قطعی ناآشنا ہے اور اس کی بجائے محض جبلی طاقت کو قانون منوانے کی خوگر ہوتی ہے۔

کوئی فرشتہ بھی آ کر اگر زمین پر خلیفہ کا حق منواتا تو اسے بھی یہاں ’رجل بشر‘ بن کر ثابت ہونا پڑتا۔ اللہ کی طرف سے مبعوث کردہ پیغمبر، انبیاء اور رسول اپنے اپنے ادوار میں زمین کی عمل داری پر خلیفہ تھے۔ وحی کی وساطت سے ان پر جو نظام حیات نازل ہوتا تھا تو ایسا نزول ان کی غیب سے بالواسطہ یا بلاواسطہ قربت اور مشاہدے کے ’نورانی حق‘ کی تصدیق ثبت کر دیتا تھا۔ جس کا مطلب خود بخود طے ہو جاتا ہے کہ ہر رجل بشر نبی نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب کوئی نبی مبعوث ہوتا یا اللہ کی طرف سے وہ منصب نبوت پر فائز ہوتا تھا تو اس کی بشریت، نبوت اور نورانیت تینوں باہم یکجا اور لازم و ملزوم ہو رہتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک تلازم کی نفی نقص ایمان کے معنی تو کھولے گی، اثبات ایمان کے معنی پورے نہیں کرے گی۔

حضرت محمد ﷺ پر آ کر سلسلۂ نبوت و رسالت چونکہ ختم ہو گیا کیونکہ انسانیت اب اپنے دور تولد، دور بچپن اور دور لڑکپن سے گزرتی ہوئی دور بلوغت میں داخل ہو گئی تھی اور اپنے شعور اور اختیار سے حق و باطل، خیر و شر، فساد و دفاع اور غلط یا صحیح کے مابین فیصلہ جاننے، ماننے اور کرنے کے لیے قانون کی طاقت اور طاقت کے قانون پر مبنی توازن قائم رکھنے کی اہل ہو گئی تھی اور اس میدان میں طرح طرح کے حادثوں اور تجربوں سے سیکھتے ہوئے آج تک قوموں، ریاستوں کے نظام ہائے عمل داری کو سنبھالنے تک آپہنچی ہے ، باہمی تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ بھی تشکیل دے چکی ہے تو اس صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت زمین پر اپنی عمل داری نبھاتے ہوئے قانون کی طاقت اور طاقت کے قانون کے درمیان توازن قائم رکھنے پر پوری اتر رہی ہے یا نہیں؟

دوسرے لفظوں میں پوچھا جائے کہ اس دور میں قانون کی طاقت غالب ہے یا طاقت کا قانون غالب ہے؟ اگر طاقت کا قانون غالب ہے تو طاقت ہمیشہ جبلی رعونت پر استوار ہوتی ہے جو اپنی دھاک بٹھانے پر کار بند ہوتی ہے تو اس صورت میں یقیناً ریاستوں، قوموں اور عالمی اداروں کا دستوری اور قانونی اثر بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے۔ ہر جگہ گڈ گورننس بگڑ کر بیڈ گورننس کی عمل داری کے آگے سرنڈر ہوتی جاتی ہے اور پھر زمین پر نظام حیات کا توازن بیڈ گورننس کے حق میں از خود اس طرح استوار ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ جنگلی اور آبی حیات سے لے کر حیوانی اور انسانی حیات تک سب افراتفری اور فساد انگیزی کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔

اس کے برعکس قانون کی طاقت غالب ہو تو ہر فساد کے خلاف اس کا دفاع کارگر اور مؤثر ثابت ہوتا ہے اور دنیائے حیات کسی فساد کے شکنجے سے محفوظ رہتی ہے۔ قرآن میں اس جانب واضح نشاندہی موجود ہے کہ کہ ”اللہ اگر بعض قوتوں کو بعض دوسری قوتوں سے دفع نہ کرتے رہتے تو یہ زمین فسادوں سے اٹ جاتی“ آر کوے کی کتاب ’سیون ہیبٹس‘ میں بھی ایک جگہ ایسی ہی نشاندہی ہے کہ

”All that is necessary for the triumph of evil is that good men do nothing.“

زمین پر فساد انگیزی کا غلبہ جب اس حد کو جا پہنچے ، جب اس کے مقابل دفاعی قوتیں ناکام یا بے بس ہو کر رہ جائیں تو غیبی قوت عملداری بھی نظام کائنات کی طرح نظام حیات کے توازن کو برقرار رکھنے کی انتباہی مداخلت کر ڈالتی ہے۔ کہیں ابرہہ کے ہاتھی بھسم کر دیے، کہیں نوح اور لوط کی قوموں کی مزاج پرسی کر ڈالی اور کہیں عاد اور ثمود کی جبلی رعونتوں کو مزہ چکھایا۔ اسی طرح امریکہ اپنی طاقت کے قانون سے بھٹو کو عبرت کا نمونہ بنا کر اپنا جہادی فساد لے آیا۔افغانستان کا تورا بورا کرتے ہوئے عراق اور مشرق وسطیٰ تک انسانیت کو تہ تیغ اور دربدر کرتا گیا۔ کشمیری اور فلسطینی آزادیوں کو ہندوتوائی رعونت اور صیہونی جبر تلے روندتا گیا تو آج خود بھی سنگینوں کے سائے تلے اقتدار کی منتقلی منانے کے مقام پر پہنچ گیا۔

کہانی لمبی ہے۔ پاکستانی حکمرانی بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر اپنی جبلی رعونت کا جشن منا رہی ہے۔ غیبی قوت عملداری کا انتباہ طاقت کے ہر جبلی قانون کو ’وبائی وائرس‘ سے سرزنش کر رہا ہے کہ ’روک سکتے ہو تو روک لو‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).