ارطغرل ڈرامہ اور ماضی پرستوں کا جوش


آحرکار یکم رمضان 2020 کی وہ متبرک گھڑی آن پہنچی جب سرکاری چینل پر سیدی ارطغرل کی زیارت ہوئی۔ بس دل باغ باغ ہو گیا، خوشی کے عالم میں رخساروں پر آنسو بہہ نکلے اور یہ سوچ کر تو میں زار و قطار رو پڑا کہ اس سلسلے میں ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم کی کتنی کاوشیں ہیں، کیسے خون پسینہ ایک کر کے انہوں نے یہ ڈرامہ سرکاری چینل پر نشر کروایا، بس پھر کیا تھا یہ سوچ ذہن میں آتے ہی جسم میں جھرجھریاں سی آنے لگیں اور مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔

بلاشبہ مسلمانوں کا ماضی شاندار اور تابناک تھا لیکن حال اور مستقبل کا کیا؟ اس کا کیا ہو گا صاحب؟ ارے! چھوڑیں ناں آپ بھی کن باتوں میں لگ گئے، ڈرامہ دیکھو ڈرامہ۔

مجھے اس ڈرامے سے یا مسمانوں کی تاریخ کو اجاگر کرتے کسی بھی ڈرامے یا فلم سے کوئی مسئلہ نہیں۔ بلکہ میری تو یہ رائے ہے کہ ساس بہو کے جھگڑوں کی جگہ ایسے موضوعات پر زیادہ سے زیادہ ڈرامے بننے چاہییں لیکن مستقبل کا بھی تو کچھ سوچیں ناں جناب والا۔

دور حاضر ٹیکنالوجی کا دور ہے، غیر لوگ چاند پہ پہنچ گے اور مزید سیاروں پہ جانے کی تیاری میں ہیں۔ جب یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ ٹیکنالوجی کے خوالے سے موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے تو جواب ملتا ہے کہ کچھ بھی تو نہیں کیا ابھی۔ بلکہ حکومت کو تو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ ”ابھی تو میری عمر ہی کیا ہے”، مطلب ابھی ہم نئے ہیں، کچھ تجربہ تو حاصل کرنے دیں اقتدار کا۔

واپس آتے ہیں ڈرامہ سیریل ارطغرل کی طرف، تو جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ اس کے ساتھ ہی ساتھ جدید علوم کے کچھ دلچسپ پروگرام بھی نشر ہوں۔ بابائے کیمیا بو علی سینا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی شخصیات کی خدمات اور جدوجہد پر مبنی کوئی ڈرامہ یا ڈاکیومینٹری بنا دیں۔ کیونکہ یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ ہم لوگ فلموں اور ڈراموں سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اس اقدام سے اور کچھ ہو نہ ہو، ہمارے بچے بہت کچھ سیکھیں گے اور ایک خوشحال و تابناک مستقبل کی جانب شاید یہ پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

آپ میری یہ تحریر ایک صلیبی کے بنائے موبائل اور ایک یہودی کی بنی ایپ کے ذریعے پڑھ رہے ہیں۔ خدارا اپنے حال اور مستقبل کے حوالے سے تھوڑا فکر مند ہو جائیں اور یہ سوچیں کہ دوسری اقوام کہاں کھڑی ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ ہم صرف ماضی زدہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).