تعلیم برائے نوکری کو نصب العین بنانے والے


پو پھٹتے ہی ہر طرف رونق لگ گئی ، کاروبار زندگی کا آغاز ہو گیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے کاموں پہ جانے کی جلدی میں ہے۔ کچن میں برتنوں کی آواز ، صحن میں چڑیوں کا چہچہانا ، ہر طرف غل مچا ہوا ہے۔ اتنے میں بیڈ روم میں ماں کی آواز آئی۔ جو اپنے بیٹے کو نیند کی وادی سے حقیقت کی دنیا میں لانے کے جتن میں مصروف ہے۔

اٹھ جائیے بیٹا! سکول سے دیر ہو رہی ہے۔ سکول نہیں جائیں گے تو اچھے نمبر کیسے لائیں گے۔ میرا بیٹا افسر کیسے بنے گا؟ اٹھ جائیے ، آپ کو سکول جانا ہے ، پڑھ کے افسر بننا ہے ، ڈھیر سارے پیسے کمانے ہیں، بڑی گاڑی لینی ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہ رٹے رٹائے جملے ہیں جو ہر گھر میں بولے جاتے ہیں اور ہماری قوم کے سو میں سے ننانوے بچوں کو جنم دینے کے بعد ازبر کروائے جاتے ہیں۔ آپ چار سال کے بچے سے پوچھ لیں کہ آپ نے کیا بننا ہے ، جواب یا تو ڈاکٹر ملے گا یا انجینیئر یا کوئی بڑا عہدیدار۔ چلیں ڈاکٹر ، انجینیئر یا بڑے عہدے کی حد تک بھی بات قابل قبول ہے ، انسان کو بلند سوچ رکھنی چاہیے مگر جب پوچھا جائے کہ آپ یہ پیشہ اپنا کے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ تو جواب ملے زیادہ پیسے کمانے ہیں ، گاڑی لینی ہے ۔ خواہشات کی ایک لمبی لسٹ ہو گی جو اس نے رٹی ہو گی۔

کبھی ہم نے بچوں کو یہ نہیں سکھایا کہ وہ یہ عہدہ حاصل کر کے سسٹم میں موجود نقائص کو ٹھیک کرے گا یا ایمانداری سے کام کرے گا ، بے بس لوگوں کی آواز بنے گا۔ بس ہم شہرت ، پیسہ اور پروٹوکول چاہتے ہیں۔

ہم اخلاقیات کا رونا تو روتے ہیں۔ ہر روز روح فرسا واقعات پہ افسوس تو کرتے ہیں مگر کبھی ہم نے وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ جب ہمارا تعلیم حاصل کرنے کا مقصد فقط پیسہ کمانا یا اچھی نوکری ہے تو میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں کام چور نوکر ہی پیدا ہوں گے۔

تعلیم کا بنیادی مقصد روح کی آبیاری ہے۔ اپنی ذات سے آگہی ہے۔ اپنے رب کو جاننے کا طریقہ ہے۔ مگر ہم خود بھی ایک نوکر بننے کی تگ و دو میں مگن ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اسی ڈگر پہ چلنا سکھا رہے ہیں۔

ہم نے کبھی بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ علم کہتے کسے ہیں؟ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ڈاکٹر بن کے لوگوں کی خدمت کرنی ہے ، ہمیشہ ہمارا نصب العین پیسہ شہرت اور آسائش ہوتا ہے۔ ہم تعلیم اور علم کے حقیقی معانی سے نا آشنا ہیں۔ علم انسان کو اس کے خالق تک پہنچاتا ہے مگر آج ہمیں اپنی ذات تک پہنچنے کے لیے میلوں کا سفر درکار ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہی ہماری ناقص سوچ ہے۔ ہم نے علم کو صرف نمبر حاصل کرنے تک محدود کر دیا ہے ، سوچ و سمجھ سے عاری ہم کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس تعلیم تو ہے مگر علم نہیں ہے ، علم تو ہے مگر عمل نہیں ہے اور عمل کے بغیر علم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہماری معاشرتی اخلاقیات وینٹی لیٹر پہ آخری سانسیں لے رہی ہیں اور ہم بحث و مباحثے میں پڑے ایک دوسرے کو روند کر آگے نکلنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

جس معاشرے میں تعلیم کا بنیادی مقصد فقط نوکری ہے، وہاں رشوت سفارش جیسے ناسور عام ہوا کرتے ہیں۔ خدارا ان سب کے لیے اپنی اخلاقی قدروں سے مت گریے۔ کمائیے مگر اخلاق اور احساس کے ساتھ۔ علم کا مقصد شعور ہے ، اسے اجاگر کیجیے۔ ”تعلیم برائے پیسہ“ یہ کسی ایک خاندان کا المیہ نہیں ہے ، یہ میرا آپ کا ہم سب کا نقطہ نظر ہے۔ مجھے ایسے بہت سے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے جن کی تعلیم تو ایم فل لیول تک ہے مگر اخلاقی قدروں سے نابلد انسان کو انسان سمجھنے سے قاصر اونچے عہدوں پہ براجمان ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں کو اور موجودہ ننھے پودوں کو جنہوں نے مستقبل میں خوبصورت تناور درخت بننا ہے ، ان کو علم و فہم کا جام پلایا جائے۔ اخلاقیات کی کھاد کو وسعت النظری کے سمندروں میں گھول کر ان کی آبیاری کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو تعلیم کے حقیقی معنی سمجھ آ سکیں اور علم ان کی روحوں کو سیراب کرتا ، ان کے اذہان میں رچ بس جائے اور ہمارا شمار بھی زندہ جاوید اقوام میں ہو ، بالکل ہمارے آبا و اجداد کی طرح۔

بہاور فرید
Latest posts by بہاور فرید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).