کرونا وائرس اور سازشی محرکات


کورونا کے پھیلاؤ اور وجوہات کے بعد اس کی ویکسین کے بارے میں بہت سی سازشی تھیوریز گردش میں رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر لوگ سازشی نظریات پر یقین کیوں کرتے ہیں؟ اس کی نفسیاتی وجوہات کیا ہیں؟ اور جو لوگ سازشی نظریات پر زیادہ یقین کرتے ہیں وہ کس طرح کی نفسیاتی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں؟

ماہرین نفسیات کے مطابق سازشی نظریہ دراصل ایک مفروضہ ہوتا ہے کہ ”ایک خفیہ گروہ ہے جس کے عزائم برے ہوتے ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے“ ۔ عالمی سطح پر امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا قتل، عمومی ویکسینیشن، آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق سازشی تھیوریز بھی مشہور رہی ہیں۔

اگر ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو یہاں بھی ہر اہم عالمی یا قومی واقعے کے پیچھے سازشی نظریات تلاش کرنا معمول کی مشق ہے۔ گزشتہ سال سے کورونا کے علاج، ویکسین، حتیٰ کہ اس بیماری کے وجود اور حقیقت کے بارے میں ساری دنیا میں لوگوں نے سازشی تھیوریز گھڑ رکھی ہیں اور انہیں پھیلا رہے ہیں۔

چونکہ اس کا تعلق انسانی سوچ اور نفسیاتی ردعمل کے ساتھ ہے لہٰذا آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ اس کے بارے میں کی گئی ریسرچ کیا کہتی ہے:

2017 میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق سازشی نظریات کے حامل افراد میں شائستگی، دوسروں پر بھروسا کرنے، تعاون اور اخلاقیات کی کمی ہوتی ہے۔ یہ لوگ سازشی نظریات کو دوسروں کو دھوکہ دینے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح سے اپنے مخصوص مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے (cognitive processes) یعنی سوچنے ، سمجھے اور سوجھ بوجھ کی صلاحیت کا جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ یہ لوگ دو یکسر مختلف واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس تعلق کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں، حالانکہ ان واقعات کے درمیان میں وہ تعلق سرے سے ممکن ہی نہیں ہوتا۔ جیسے کورونا اور زہر کا ٹیکہ۔

ایسے افراد کی تنقیدی تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی بہت کم ہوتی ہے۔ سازشی نظریات کی قلعی بہت آسانی سے کھولی جا سکتی ہے کیونکہ یہ بالکل بے بنیاد اور مفروضوں پر قائم ہوتے ہیں۔ کسی بھی سازشی نظریے کو اگر اجزاء میں تقسیم کر کے ان کا جائزہ لیا جائے اور نقاط ملانے کی کوشش کی جائے تو آپ کو کوئی سرا نہیں ملے گا۔

مثال کے طور پہ ہمارے ملک کے ایک سیاست دان نے یہ مفروضہ بیان کیا کہ اس ویکسین کا مقصد مردوں کی جنسی طاقت کو کم کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کے ہاں بچے کم پیدا ہوں۔ ایک اور سازشی نظریے کے مطابق کورونا ویکسین دراصل بل گیٹس کا تیسری دنیا کے لوگوں کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے یا کورونا فائیو جی کی وجہ سے پیدا ہوا وغیرہ وغیرہ۔

آخر لوگ ایسا کیوں کہتے اور سوچتے ہیں؟ علم نفسیات کے مطابق سازشی نظریات کو مان لینے والوں کے اندر اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد منوانے کی خواہش شدید نوعیت کی ہوتی ہیں جبکہ ان کے اندر کوئی ایسی خوبی نہیں ہوتی کہ جس کی بنیاد پر ان کو منفرد سمجھا جائے۔ اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی ”خاص“ شخصیت یا کوئی خاص ”قوم“ یا کوئی خاص گروہ ہیں کہ جن کو دوسری قومیں نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ ان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے پاس دوسروں کی نسبت زیادہ خفیہ معلومات ہیں جو کہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں۔

ایسے لوگ اپنے نظریات کو منوانے کے لیے ان معلومات یا کہانیوں کا تعلق مذہبی ہستیوں کے خوابوں اور بشارتوں سے منسوب کرتے ہیں جو خود کو غیبی علم کا مالک تصور کرتے ہیں۔ ایک اور حالیہ تحقیق میں محققین نے معلوم کیا کہ وہ افراد یا قومیں جو نرگسیت کا شکار ہوتی ہیں ، ان کے اندر سازشی نظریات بہت تیزی اور آسانی کے ساتھ پھیلتے ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق سازشی نظریات پر یقین رکھنے کی ایک اور نفسیاتی وجہ یہ ہے کہ کسی ذاتی صلاحیت اور ہنر کی کمی کی وجہ سے نہ تو وہ کسی کو متأثر کر سکتے ہیں نہ ہی دوست بنا سکتے ہیں، ایسے لوگ سماجی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔

پھر اس کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ سازشی نظریات کے حامل لوگ ایک دوسرے سے جڑتے چلے جاتے ہیں اور گروپ بنا لیتے ہیں اور ایک دوسرے کے غلط اندازِ فکر کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ہم عام طور پر مشاہدہ بھی کر سکتے ہیں کہ ایسے لوگ سماجی اقدار یا ملکی قوانین سے مکمل طور پر لاتعلقی اور بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ لاک ڈاؤن کے دوران مذہبی اور سیاسی اجتماعات کا انعقاد اور سماجی رسومات کی ادائیگی اور SOPs کھلم کھلا کی خلاف ورزی جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

سازشی نظریات پر یقین کی ایک اور وجہ احساس کمتری اور طاقت سے محرومی کے احساسات ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر معاشرے کے پسے ہوئے طبقے سے ہوتے ہیں۔ غربت، تعلیم کی کمی اور مذہبی یا سیاسی شدت پسندی کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں مقصد اور معنویت کی کمی ہوتی ہے۔ یہ اپنے ناخوشگوار اور برے حالات کا الزام کسی خفیہ طاقت پر لگا کر اپنے حالات میں معنی تلاش کرتے ہیں ۔ یہ ان کا ایک نفسیاتی دفاعی ردعمل ہے جو ان کو غیر یقینی حالات اور واقعات میں محفوظ اور طاقتور ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

سازشی نظریات پر یقین کرنے والے افراد یا قوموں میں یا تو عزت نفس کی کمی ہوتی یا پھر زیادتی۔ ان میں عزت نفس کا احساس عدم توازن کا شکار ہوتا ہے یعنی یا تو وہ خود کو کوئی ”پہنچی“ ہوئی قوم سمجھتے ہیں یا پھر بہت ہی محروم، مظلوم، مجبور اور کمزور سمجھتے ہیں۔

آج کل سازشی نظریات کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ انٹرنیٹ یا فیس بک ہے۔ ملکی یا عالمی سطح پر کوئی بھی واقعہ ہونے کے محض 5 سے 10 منٹ کے اندر اندر سوشل میڈیا میں ان کی حمایت یا مخالفت میں گروپ بن جاتے ہیں جیسے امریکی الیکشن میں فراڈ کے حامیوں اور مخالفوں کے فیس بک گروپ نتائج کے اعلان کے فوراً بعد بن گئے تھے۔

اچھا اب یہ سوال کہ کیا ہم بحث یا دلائل کے ذریعے ان لوگوں کی سوچ کو تبدیل کر سکتے ہیں تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو دلائل سے قائل کرنا بہت ہی مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے عقائد منطقی دلیل پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ مفروضوں، کٹر مائنڈ سیٹ اور نفسیاتی شک و شبہ ( Paranoia) پر مبنی ہوتے ہیں جن کا حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

بحث کو سمیٹتے ہوئے آخری سوال کہ کیا سازشی نظریات دنیا سے ختم ہو سکتے ہیں؟ علم نفسیات کے مطابق سازشی نظریات ختم نہیں ہو سکتے جب تک کہ ان پر یقین کرنے والے باقی ہیں اور جب تک تعلیم ، شعور ، تنقیدی سوچ اور تجزیہ کو پروان نہ چڑھایا جائے۔ اس لیے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے ساتھ بحث کرنے سے احتراز کریں ، آپ کے دلائل انہیں قائل نہیں کر سکتے ، کیوں کہ سوچ اور انداز فکر کی تبدیلی ایک ایسی کھڑکی ہے جو اندر سے کھلتی ہے باہر سے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).