نرس کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ اور غیر مسلم ملازمین کی تشویش


چند روز قبل 28 ( جنوری کو) سوشل میڈیا پر کچھ کلپس وائرل ہوئے تھے جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہسپتال کے بنچ پر بیٹھی ایک خاتون پر دیگر خواتین جوتوں ’تھپڑوں اور مکوں سے تشدد کر رہی ہیں۔ اس سے مطالبہ کیا جا رہا کہ وہ لکھ کر دے کہ آئندہ کوئی توہین آمیز بات نہیں کرے گی‘ تشدد کا نشانہ بننے والی خاتون کا نام تبیتا گل ہے جس کا تعلق کرسچن کیمونٹی سے ہے اور وہ اسی ہسپتال میں بطور نرس کام کرتی ہے جس ہسپتال میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

’تشدد کرنے والی کوئی اور نہیں اسی ہسپتال میں کام کرنے والی اس کی ساتھی نرسز اور دیگر خواتین ہیں۔‘ تبیتا گل کے خلاف 29 جنوری کو کراچی کے تھانہ آرام باغ میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ’ایف آئی آر کے متن کے مطابق مڈ وائف سٹوڈنٹ صبا نے کاکہنا ہے کہ وہ آپا نسرین سے عمرہ پیکج کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ اس دوران تبیتا گل جو کہ ہسپتال کی سینئر نرس ہے۔ نے توہین آمیز باتیں کیں (یہ باتیں ایف آئی آر میں درج ہیں۔ تاہم بوجوہ یہاں نہیں لکھی جا رہی) بعد ازاں نسرین آنٹی اورتبیتا گل کے درمیان بحث بھی ہوئی میں نے یہ تمام باتیں اپنی سینیئر سعدیہ صاحبہ کو بتائیں‘ میرا دعوی ہے کہ تبیتا گل نے تمام انبیائے کرام اور مذہب اسلام کی شان میں گستاخانہ الفاظ بولے ہیں۔ اس لئے ا س کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے پاکستان میں توہین مذہب کے تحت مقدمات کا اندراج پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ تاہم تبیتا گل کے خلاف جس طرح سے کارروائی عمل میں لائی گئی ہے، یہ تشویش ناک ہے۔

’ایسی جگہ جہاں پر ایک غیر مسلم خاتون ملازمت کرتی ہے۔ اس پر ایک سٹوڈنٹ کی جانب سے الزام عائد کیا جانا اور پھر وہیں پر سینئر‘ جونیئر سب کے سامنے اسے جوتوں کو نشانہ بنایا جانا تشویشناک نہیں انتہائی تشویشناک امر ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی سوشل میڈیا پر وائرل کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس خاتون کو جس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان تمام مناظر کی باقاعدہ عکس بندی کی گئی ہے جن کو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے کلپس سی سی ٹی وی کیمرہ کے نہیں ہیں۔

وطن عزیز کا کوئی ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جہاں کوئی غیر مسلم کام نہ کرتا ہو ’تبیتا گل پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل کلپس غیر مسلم ملازمین کے لئے زیادہ تشویشناک اس لئے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس طرح کی کارروائی کسی وقت ان کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔‘ ملازمت کی جگہ پر سینئر یا جونئیر سے کام یا کسی اور حوالے سے اختلاف ہونا عام سی بات ہے۔ ’بحث مباحثے بھی ہمارے ہاں روٹین کی بات ہے۔

مگر اس کے نتیجے میں اس قدر پرتشدد کارروائی‘ سوچئے جو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں۔ انہیں تبیتا گل کے اہل خانہ اور اس کے بچوں نے بھی دیکھا ہوگا ان کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ بالفرض تبیتا گل نے ایک سٹوڈنٹ کے سامنے اگر توہین آمیز باتیں کی تھیں تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ اس حوالے سے نرسنگ انچارج، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ یا ہسپتال کے اعلیٰ حکام کو آگاہ کرتی اور وہ اسے قانون کے حوالے کرتے کیونکہ توہین مذہب کے حولے سے سخت قوانین اور سزائیں موجود ہیں۔

مگر ایک سٹوڈنٹ کے الزام پر اسی ہسپتال میں سینئر نرس کو جوتوں ’مکوں اور تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جانا اس بات کی نشاندہی ہے کہ غیر مسلم ملازم کے ساتھ کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ تبیتا گل پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس کے ساتھ کام کرنے والی نرسز اور کچھ اور افراد جن کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔ نے بھی اس حوالے سے اپنے کلپس شیئرکئے ہیں جن میں ان کا کہنا ہے کہ تبیتا گل کے ساتھ جو کچھ ہوا افسوسناک ہے۔

سرعام ایک عورت کو جوتے مارے جانا عورت کی توہین ہے۔ ان کلپس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تبیتا گل ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ اس کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم نے کبھی بھی اسے کسی کی دل آزاری کرتے یا مذہب کے خلاف بولتے نہیں سنا جبکہ تبیتا پر تشدد کی جو ویڈیو وائرل ہے۔ اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ خود یہ کہہ رہی کہ میں نے کسی کی توہین نہیں کی مگر اس کی بات کوئی نہیں سن رہا ہے۔ ’تبیتا گل کے خلاف مقدمہ کے اندرج والے دن ہی لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال کے نوٹس بورڈ پر لگایا گیا اشتہار نما ایک نوٹس بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس پر لکھا ہے کہ ”توہین مذہب کی سزا سر تن سے جدا“ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں بطور نرسز کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق مسیحی کمیونٹی سے ہی ہے۔

میری اس حوالے سے کچھ سنیئر نرسز سے بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو اب اپنی سٹوڈنٹس یا جونئیر نرسز کو کوئی کام کہنے سے بھی ڈرتی ہیں کہ کہیں ان کے ساتھ بھی ایسا کچھ نہ ہو جائے جو تبیتا گل کے ساتھ ہوا ہے اور یہ ڈر اب صرف نرسز ہی نہیں‘ پاکستان ہے۔ ہر سرکار ی اور غیر سرکاری دفتر میں کام کرنے والے غیر مسلم کے دل میں پایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).