بھارتی پنجاب کے نادان دوست


کچھ عرصے سے دنیا ایک ٹرمپ زدہ سماج بن کے رہ گئی ہے۔ رعونت، غیر سنجیدگی ، انتقام اور عقل کل ہونے کا زعم   لیئے  حکمران ایسے نابغے بن کر ہم پر مسلط ہوئے کہ مسلط کنندگان کی نگاہ رساکی داد نہ دینا ظلم ہو گا۔ بس یہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آتی ہے کہ اس کرہ ارض کو ان نابغوں اور ان کے فیصلوں کو کب تک بھگتنا ہو گا۔ کہیں ٹرمپ کے اثرات تلے کیپیٹل ہل بارود اور مسخروں تلے سسکتی ہے۔ کہیں سعودیہ میں وہ اکھاڑ و پچھاڑ ہے کہ کیلی گولا کا عہد لطیف یاد آجاتا ہے۔ ادھر ہمارے ہینڈسم وزیر اعظم کبھی معیشت کی نوک پلک سنوارتے ہیں تو کہیں سائنسی اور جغرافیائی نظریات کی درستی فرماتے ہیں۔  ایسے ہی کمال ہمارے پڑوس میں  مودی صاحب ہیں۔ سیکولر بھارت کی ہر نشانی نوچ پھینکنے میں غلطاں اورسرگرداں۔

لیکن کیا غضب اور قیامت کا اتفاق ہے  آنکھ کا اندھا گانٹھ کا پورا کے مصداق اپنا اور اپنے دوستوں کا فائدہ ان میں سے  کوئی بھی جانے نہیں دیتا۔ یہاں ہمارے صاحب نے چور چور کا وہ ہنگام اٹھایا کہ بڑے بڑے وفا شعاروں نے اپنے ناطے توڑ کر پارسا کی حکمرانی کا حصہ بننا گوارا کر لیا۔ اور اس شور میں ایسی ایسی واردات ڈلی کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کی رپورٹ  میں کرپشن کے اعشاریئے چھلانگیں لگاتے نظر آئے۔ ہر صحافی جس نے سچ لکھنے کی جرات کی لفافے لفافے کے شور میں منہ چھپاتا پھرتا ہے اور لفافوں کے خلاف جہاد کے نعرے لگانے والے مبینہ صحافی ذاتی جہازوں کے مالک ہو گئے۔ ایسے ہی مودی صاحب نے بظاہر قانون سازی اور نئے روشن ہندوستان کا غلغلہ بلند کیے رکھا اور ایسے صفائی سے کاریگری دکھائی کہ  ہندوستان کے دہقان ایک قانون سے ساہوکار کے رحم و کرم پر آگئے۔ اب یہ مکیش انبانی ہوں یا مودی صاحب کے اپنے مالی۔

سینتالیس میں غیروں کے ظلم اور اپنی  جذباتیت  سے کٹا پھٹا پنجاب  اب  جاڑے میں سینچے اور چلچلاتی دھوپ میں برداشت کیئے اپنے ہی  آٹے سے محروم ہو چلا ہے۔ کسان کے بچے سے روٹی چھیننے کا فیصلہ پنجاب نے مسترد کر دیا ۔ منظرنامہ واضح ہے کہ اناج گھر پنجاب کے بچے کل ایک ایک نوالے کے لیے سرمایہ کار کی مرضی کو دیکھیں گے ۔ سال بھر مٹی میں مٹی ہونے کے بعد روٹی بھی خیرات میں ملے گی۔ اس ظلم پر خاموش پنجاب چیخ  اٹھا ، مائیں بہنیں بیٹاں تڑپ اٹھیں ۔ پنجاب سے وہ تحریک اٹھی ہے وہ جذبوں کی آگ بھڑکی ہے کہ دہلی سرد موسم میں حدت محسوس کر رہی ہے۔  پنجاب میں خالصتاً ایک طبقاتی اور حقوق کی کسانی تحریک اٹھی ہے۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی کون ہے جو اس کا حصہ نہیں کسانی پرچم اٹھائے مائیں عزم و ہمت کی تصویر بنی نظر آتی ہیں بندوقوں اور لاٹھیوں کے سامنے سینہ سپر بزرگوں کے حوصلے جوان ہیں ۔ سڑکوں کے کنارے بیٹیاں دھرنا دیئے روٹیاں پکاتی ہیں نانک اور بلھے شاہ کے الفاظ کا جادو دہلی کے دروازوں پر چھایا ہے۔

لیکن کیسا ظلم سا ظلم ہے یہاں پاکستان میں کسانی تحریک کو سکھوں کی تحریک بنا دیا گیا، ایک ایسی تحریک جس میں سماج کا ہر طبقہ شامل ہو اس میں مذہبی افراد بھی شامل ہوں گے ، سوشلسٹ تحریکوں کے سرخ پرچم بھی کسانی تحریک میں لہراتے ہیں  اور نشان صاحب بھی لہراتا ہے۔ لیکن ہماری سوچ خالصتان تحریک سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی۔ مشرقی پنجاب کا شعور سماج کے ارتقاٗ کا مظہر ہے ثقافتی ہتھیاروں  سے لیس جو خالصہ تحریک سے بہت آگے جا چُکا ہے۔ لیکن ہمارے چینلز پر آج بھی اس سے کوئی خالصتان برآمد ہونے کی آس نظر آتی ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ پر کسانی تحریک اور نشان صاحب لال قلعہ کی بیرونی دیوار پر لہرایا دیا  گیا تو پاکستان میں ایک بھونچال آگیا کہ لال قلعے پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا گیا۔ خدارا کوئی تحقیق کوئی محنت کوئی تصدیق ۔ مودی سرکار نے پاکستانی چینلز کی فوٹیجز کو جی بھر کے زمین سے پھوٹی کسانی تحریک کو خالصتان کی مسلح شدت پسند مذہبی تحریک سے جوڑا۔
یہ پہلی بار ہوا ہے مشرقی پنجاب کی تحریک پر پاکستان سے ثقافتی حمایت کی گئی ہے لیکن اس تحریک کو کسانوں کی تحریک ہی رہنے دیں اسے روٹی مٹی اور طبقے کی تحریک ہی رہنے دیا جائے خالصتان کے نعرے سے اسے مذہبی جنگ نہ بنایا جائے کیونکہ پاکستانی مسلمان بھائیو یہ مشرقی پنجاب کے مسلمان دہقانوں کی بھی تحریک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).