سمجھ دار بندر


اسلام آباد سے مداری کا پالتو بندر رسی تڑوا کر بھاگ نکلا۔ اس کی منزل ایبٹ آباد تھی۔ مداری کے گھر میں رہ کر یہ بولنا سیکھ گیا تھا۔ سمجھدار تو یہ پیدائشی ہوتے ہیں۔ میری اس سے ملاقات نتھیاگلی میں ہوئی۔

میں اس سے کوئی دو ماہ پہلے ملا تھا، مطلب اس کا کرتب دیکھا تھا۔ اسلام آباد کے لیک ویو پارک میں۔ بندر نے مداری کے اشاروں پر کرتب دکھا کر لوگوں کو خوب محظوظ کیا تھا۔ کھیل ختم ہونے پر میں نے ڈبے میں کچھ پیسے ڈالنے کے ساتھ بندرکو کیلوں کا گچھا بھی دیا تھا۔ جس پر وہ بہت خوش ہو کر میرے پاس بیٹھ گیا تھا۔ جب میں اٹھنے لگا تو اس نے میری ٹانگ کو پکڑ لیا۔ میں نے اس سے ٹانگ چھڑانے کی بڑی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ میں نے مداری سے کہا:

”یار اس سے میری جان چھڑاؤ؟“ لیکن مداری میری بات سننے کے بجائے پیسے گنتا رہا۔
” ابے بندرہٹ پرے، چھوڑ مجھے!“ میں نے بندر پر غصہ کیا تو بندر نے کہا:

” بڑے بھائی غصہ تو نہ کرو مجھ پر، مجھے مداری نے کبھی کیلا نہیں کھلایا۔ لوگ ایک آدھا کھلاتے تھے۔ تم نے پورا گچھا دیا ہے۔ اس لئے کچھ دیر رکو، تم چلے گئے تو مداری کیلے چھین لے گا۔“

”بولتا ہوا بندر۔“ بندر کو چپڑ چپڑ بات کرتا دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

بندرجلدی جلدی کیلے ختم کرنے کی کوشش میں تھا، کہنے لگا ”اتنا حیران کیوں ہیں۔ ہمارے اجداد تو ایک ہی ہیں۔ بس ہم وہیں رہ گئے اور تم آگے نکل آئے۔“

علمی گفتگو پر میں چونکا ”کیا کہہ رہے ہو تم“

پانچواں کیلا ختم کرتے ہوئے بندر نے کہا تھا ”تم سوچ رہے ہو گے میں بول کیسے سکتا ہوں اور میں یہ بات کیسے جانتا ہوں۔ دراصل میرا بچپن ایک بائیولوجی کے پروفیسر کے گھر میں گزرا ہے۔ وہ اپنے بیٹی کے لیے مجھے خرید لائے تھے۔ کبھی کبھی ان کے اسٹوڈنٹس گھر پر آتے تھے، وہ گفتگو کرتے تھے۔ وہیں میں نے ڈارون تھیوری کے بارے میں بھی سنا۔ تب سے میں خود کو آپ کا بچھڑا ہوا بھائی سمجھتا ہوں۔“

میں پھٹی آنکھوں سے اسے گھورے جا رہا تھا۔ بندر نے کہا ”بڑے بھائی نارمل ہوجائیں، اپنا منہ بند کریں اور مجھے آرام سے کیلے کھانے دیں، میں کیلوں کا ذائقہ ہی بھول گیا ہوں، کیلے کھا لوں پھر آپ چلے جانا۔“

میں بندر کے علم و فہم سے بہت متاثر ہوا اور من ہی من اس کی تعریف کرنے لگا۔

کیلے ختم ہونے پر بندرکی گرفت کمزور ہوئی اور میں آزاد ہو کر وہاں سے چل دیا۔ بندر مجھے دور تک دیکھتا رہا۔ میں نے بھی اسے مڑ مڑ کر دیکھا۔ ایک دو بار اس نے ہاتھ ہلا کر مجھے بائے بائے بھی کہا۔ میں نے بھی اسے اسی طرح جواب دیا تھا۔

آج مجھے وہ اچانک نتھیا گلی میں مل گیا، میں نے اسے نہیں پہچانا۔ سارے بندر ایک جیسے ہوتے ہیں کیسے پہچانتا۔

میں سڑک پر چلتا ہوا ایک ہوٹل کی طرف بڑھ رہا تھا، اس مداری کے بندر نے مجھے پہچان لیا اور میرے سامنے آ کربیٹھ گیا۔ میں نے اسے عام بندر سمجھ کر ہاتھ میں موجود پاپ کورن دینے چاہے لیکن اس نے منہ پھاڑ کر کہا ”کیلے چاہئیں۔“

میں اچھل پڑا۔ مجھے یوں دیکھ کر بندر مسکراتے ہوئے بولا:
”پہچان لیا بڑے بھائی!“
” تم، یہاں کیا کر رہے ہو، اسلام آباد سے یہاں کیسے آئے، تیرا مالک کہاں ہے؟“
میرے سوالوں پر بندر نے کہا ”یہاں سڑک پر بات کرنا مناسب نہیں، ایک طرف بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“
” ٹھیک ہے، رکو میں کشمیری چائے لے لوں پھر ہم بیٹھتے ہیں“ میں نے کہا۔

” ایک کپ میرے لئے بھی لینا، کافی اور دوسری چائے تو پی ہے، لیکن کشمیری چائے کبھی نہیں۔“ بندر نے مسکین سی شکل بنا کر کہا۔

” ہاں بالکل، رکو میں لاتا ہوں۔“ میں یہ کہہ کر دکان پر گیا اور دو کپ کشمیری چائے لے کر درختوں کے جھنڈ میں جا کر بیٹھ گیا۔ بندر بھی میرے ساتھ ہی تھا۔ چائے کا کپ اسے دیا اور ہم دونوں چائے کی چسکیاں لینے لگے۔ شام کے وقت بارش نے موسم سرد کر دیا۔

بندر کو میرے ساتھ دیکھ کر کچھ اور بندر بھی وہاں آ گئے۔

میرے پاس بیگ میں چپس، مونگ پھلی، کنو اور کیلے تھے، بندروں کو ان چیزوں کی شاید خوشبو آ گئی تھی اور انہوں نے بیگ کو کھینچنا شروع کر دیا۔ ان کے بار بار بیگ کھیچنے پر مداری کے بندر نے کہا:

” بڑے بھائی جو لائے ہو وہ بانٹ کیوں نہیں دیتے؟ ویسے بھی تم انسان ہر شے پر اپنا حق سمجھتے ہو، جنگل، دریا، سمندر، پہاڑ، میدان سب کے سب اپنے۔ یہاں تک اپنی چیز تو اپنی پرائی چیز بھی اپنی۔ کتنی ہوس ہے ناں!“ بندر طنز کے نشتر چلا گیا۔ میں اس کی باتیں سن کر چپ رہا۔

اس سے پہلے کے میں بیگ کھولتا۔ سڑک پر ایک گاڑی آ کر رکی، اور سارے بندر اس گاڑی کی آواز سن کر اس طرف لپکے۔ لیکن مداری والا بندر میرے پاس ہی بیٹھا رہا۔

” یہ سب بندر کہاں بھاگ گئے۔“ میں نے پوچھا

”وہ نیچے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی والوں کی گاڑی آئی ہے، یہ لاک ڈاؤن کے دوران بھوکے بندروں کے لئے کھانے کی چیزیں لائے ہیں، بندر سب وہاں گئے ہیں۔“

” تم مداری کے پاس سے بھاگے کیوں؟“ میں نے پوچھ ہی لیا۔

”وہ نہ کھانے کو دیتا تھا، نہ سونے کو ٹھیک جگہ تھی اور جو پیسہ کماتا تھا، وہ سارا خود ہڑپ کر جاتا تھا، یہی نہیں وہ کمائی اپنی بیوی بچوں پر بھی خرچ نہیں کرتا تھا اور جوئے میں اڑا دیتا تھا۔ میرے پاس کوئی اور حل نہیں تھا سو بھاگ نکلا۔“

” اچھا وہ پروفیسر کا گھر کیوں چھوڑا؟“ میں نے دوسرا سوال پوچھا۔

” پروفیسر کے انتقال کے بعد اس کے بچے باہر چلے گئے اور باہر جانے سے پہلے مجھے انہوں نے بازار میں بیچ دیا۔ میں تب چھوٹا سا تھا اور وہاں سے مجھے مداری نے خریدا۔“ یہ میری مکمل کہانی ہے۔

”ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی، بندر بھی انسانوں کی طرح سوچتے ہیں کیا؟“ میں نے کہا۔
”ہاں انسانوں ہی کی طرح سوچتے ہیں، لیکن ایک فرق ہے!“ بندر بولا۔
”وہ کیا فرق ہے؟“ میں نے پوچھا۔

”بندروں کا کوئی بھگوان، خدا، گاڈ، پیر مرشد وغیرہ نہیں ہوتا، بس ہم سب کچھ خود ہی ہوتے ہیں۔“ بندر نے کہا۔

” ہنومان پھر کیا ہے۔“ میں نے پوچھا۔

” ہم نے کب بنایا اسے، وہ تو انسانوں کا دیوتا ہے، صرف ہندوستان میں ہی نہیں چین میں سن ووکونگ اور جاپان میں سروگامی نام سے بندر کو دیوتا کا مقام دیا گیا ہے۔“ بندر نے کہا۔

” اچھا“ مجھے حیران دیکھ کر وہ پھر کہنے لگا۔
” بھارت کی طرح نیپال اور انڈونیشیا میں بھی بندروں کے مندر ہیں، جہاں ان کی پوجا کی جاتی ہے۔“

میری حیرانی بڑھتی گئی۔ میں سوچنے لگا یہ بغیر بھگوان کے کیسے جی رہے ہیں، نہ صرف بندر بلکہ ہزاروں اقسام کے دوسرے جانور بھی۔ ”

مجھے سوچ میں دیکھ کر بندر کہنے لگا

” بڑے بھائی جانور سوچتے ہیں لیکن انسانوں کی طرح نہیں، تم ہم سے آگے تو نکل آئے، ترقی بھی خوب کر لی لیکن اپنی ہی سوچ کے غلام بن کر رہ گئے۔“

میں بندر کی باتیں سن کر شرمندہ ہوا اور آنکھیں نیچی کر کے پوچھنے لگا۔

”جب بندروں کو کھانا نہیں ملتا، پانی کی قلت ہو جاتی ہے، یا پھر ایک کے پاس کھانے کی چیزیں بہت ساری آ جائیں، جیسے تمہارے پاس بہت سارے کیلے آ جائیں، تو تم کیا کرتے ہو، کیا ایسے ہوتا ہے کہ کوئی بھوکا بندر آ کر گڑ گڑائے اور یہ کہے کہ تم ایک کیلا یہاں مجھے یا کسی دوسرے بندر کو دے دو اور بندروں کی سورگ یا جنت میں تمہیں ایک سو کیلے ملیں گے؟“

میرے سوال پر بندر زور زور سے ہنسنے لگا۔ مجھے اپنے سوال پر سوچنا پڑا، لیکن مجھے سوال میں کوئی بے تکی بات نظر نہیں آئی۔

بندر مجھے سوچتا دیکھ کر کہنے لگا ”بڑے بھائی کیسی باتیں کر رہے ہو، ہم اس طرح نہیں سوچتے، ہماری کوئی جنت ونت نہیں ہوتی، ہمارا جو کچھ ہے یہیں ہے، اس دنیا میں۔ کوئی بھگوان نہیں، کوئی جنت نہیں۔ تم میں اور ہم میں یہی تو فرق ہے کہ تم اس دنیا کو چھوڑ کسی یوٹوپیا کے چکر میں پڑے رہتے ہو، خود کہانیاں بناتے اور ان پر خود یقین بھی کرتے ہو۔ حد ہے۔“

میں بندر کی بات سن کر چپ ہو گیا، لیکن بندر چپ نہ رہ سکا، وہ ذرا غصے میں آ کر کہنے لگا۔

”مجھے اگر ڈارون مل جائے تو میں اس کا گریبان نوچ لوں اور اس سے پوچھوں کہ کیسے ہمارا اور انسان کا جد امجد ایک ہے۔ ہم جانوروں نے دنیا میں تباہی تو نہیں پھیلائی۔ انسان نے اس دنیا کو تباہ و برباد کر دیا ہے، یہ انسان ہم میں سے کیسے ہو سکتا ہے۔ اس سے ضرور غلط فہمی ہوئی ہے“

میں بندر کی بات سن کر چپ رہا اور ہاتھ کی انگلی سے زمین کو کریدنے لگا۔ کچھ دیر دونوں چپ رہے پھر بندر نے کہا:

” آئی ایم سوری، مجھے سب انسانوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ معاف کرنا لیکن حقیقت یہی ہے۔“

اس کے بعد ہم بہت دیر تک خاموش رہے۔ میں نے بغیر کچھ کہے بیگ کھولا اس میں سے چپس، مونگ پھلی، کنو اور کیلے نکال کر بندر کے سامنے رکھے اور وہاں سے چل دیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، ہو سکتا ہے بندر نے مجھے ہاتھ ہلا کر بائے بائے کہا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).