ڈیجیٹل میڈیا اور نئی نسل


میڈیا کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ہوتا ہے، ملک میں کب کیسی فضا قائم کرنی ہے یا کس ایشو کو دبانا اور اٹھانا ہے، یہ میڈیا کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے میڈیا نے جہاں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، وہیں نوجوانوں کی تربیت سازی بھی میڈیا کے رویے سے بہت متاثر ہوئی۔ ہمارے ہاں میڈیا کے کئی شیڈز ہیں مگر مجھے آج صرف ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا کے رویوں پر بات کرنی ہے۔ اس موضوع پر گزشتہ دو ماہ میں کئی مرتبہ مختلف سیمینارز اور ویب نارز میں گفتگو کا موقع ملا، اسی بہانے اس پر سوچنے اور لکھنے کا سوچا۔

دو روز قبل جناح یونیورسٹی فار ویمین کراچی کے میڈیا اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ میں اسی موضوع پر ایک ویب نار میں گفتگو کرتے ہوئے کئی اہم ترین پہلو زیر بحث آئے جن پر ڈاکٹر شجاعت حسین (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ) اور راقم الحروف نے تفصیلی گفتگو کی۔ اس ویب نار میں میڈیا ڈیپارٹمنٹ سے کئی نوجوان خواتین سپیکرز (رمشا زاہد، وردہ انیس، رافعہ ارشاد) اور میڈیا کی سٹوڈنٹس بھی شریک ہوئیں اور اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر مکالمہ کیا۔

زیادہ تر سپیکرز کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا نے جہاں ہمیں فائدے دیے، وہاں نقصانات کی شرح بھی زیادہ رہی۔ میں بھی اس بات کے حق میں ہوں کہ میڈیا کا کوئی بھی شیڈ ہو (الیکٹرانک، پرنٹ، سوشل) سب نے معاشرے کے خد و خال بنانے میں ہمیشہ سے اپنا کردار ادا کیا۔ آپ کچھ دیر کے لیے پاکستانی ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے موضوعات اور کرداروں کے مکالموں کی فہرست کا جائزہ لیں تو آپ خود سمجھ جائیں گے کہ کمرشل ازم کی دوڑ میں، انٹرٹینمٹ کے نام پر میڈیا یا ڈرامہ انڈسٹری نے ہمیں کیا کچھ دیا۔ ہم سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا سے تو شکوہ اس وقت کریں جب ہمارے ملک کے ڈرامہ چینلز سے ہمیں کچھ بہتر ملا ہو۔

پاکستانی چینلز (بالخصوص ڈرامہ چینلز) پر چلنے والی چوبیس گھنٹے کی نشریات اٹھا کر دیکھ لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ ہماری نئی نسل نے اس سے کیا سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ڈیجیٹل میڈیا کے نقصانات کی بات کرنے لگتے ہیں تو ہمارا خیال بار بار میڈیا کی ان نشریات کی طرف جاتا ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے گھروں میں دیکھی جاتی ہیں۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہم ذہنی طور پر ڈیجیٹل میڈیا ایپس کے متحمل نہیں تھے، ہمیں پہلے سوشل ایپس کی ٹریننگ دینی چاہیے تھی، اس کے بعد یہاں یہ ایپس متعارف کروائی جاتیں تاکہ ہمیں ان کے استعمال کی تمیز آ جاتی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ سو یہ تیزی سے ایپس متعارف ہوتی گئیں، ہماری نئی نسل کے ہاتھ جیسے کوئی خزانہ لگ گیا۔

اب معاملہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل نے ہر طرح کے رشتوں اور تعلقات کو سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پاس بیٹھے والدین، بہن بھائی اور دوستوں کی قدر نہیں مگر فیس بک اور یوٹیوب کے ذریعے میلوں دور بیٹھے اجنبی لوگوں سے روابط قائم کرنے کی تگ و دو میں ہم کس قدر دور نکل آئے، یہ ہم جان ہی نہ سکے۔ ڈیجیٹل میڈیا سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہماری نئی نسل نے صرف نقصانات اٹھائے اور ان پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کیا گیا، جن کے لیے ڈیجیٹل ایپس کا آغاز ہوا تھا۔

اس ویب نار میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ ہماری جامعات میں میڈیا کے اسٹوڈنٹس سے ایسے موضوعات پر مکالمہ کروایا جا رہا ہے کیونکہ جب تک میڈیا کے لیے تیار ہونے والی نسل، میڈیا کے کرائسز اور میڈیا کی بہتری پہ بات نہیں کرے گی تو کوئی اور کیسے کرے گا۔ بطور میڈیا پرسن میں نے ہمیشہ اپنے کالموں اور گفتگوؤں میں اس موضوع پر گفتگو کی کہ میڈیا نوجوانوں کی ذہنی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے، ہمیں نئی نسل کو جہاں الیکٹرانک میڈیا کے اہم ترین پہلوؤں کے بارے میں بریف کرنا ہے، وہاں سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات پر بھی بات کرنی چاہیے۔

یوٹیوب، انسٹا گرام ہو یا فیس بک و ٹویٹر، یہ ایپس اور ذرائع اب الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ طاقت ور ہو چکے ہیں۔ اس وقت لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ٹی وی آن کریں اور رات نو والا نیوز بلیٹن سنیں۔ بلکہ اب تو فیس بک اور ٹویٹر سب سے موثر اور تیز ترین ذرائع ہیں۔ اسی لیے آج ہم ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں پریشانی کا شکار ہیں کہ ہمیں صرف الیکٹرانک میڈیا کے فوائد و نقصانات پر بات نہیں کرنی۔

ہم اکثر اس بات پر پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ ”ڈیجیٹل ایرا“ نے جہاں ہمارے لوگوں کو ماڈرن بنا دیا وہیں اس بات پر بھی مکالمہ شروع ہو چکا کہ کیا ہمارے رشتے بھی ڈیجیٹلائز ہو چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم اب رشتوں میں بھی مادیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ لباس، بول چال اور زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں ایسا نوجوان درکار ہے جو زبان و بیان سے مغربی لگے، بے شک سوچ مشرقی ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج لنڈے کے لبرل کی اصطلاح بہت عام ہو گئی۔ ہم ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے خود کو زبردستی ماڈرن بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔

آپ نے مشہور مزاحیہ شاعر انور مسعود کی نظم ”بنیان“ تو یقیناً سن رکھی ہو گی۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ اس نظم کا بنیادی موضوع یہی ہے کہ ہم مغربی کلچر کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر یہ بنیان ہمیں پوری نہیں آ رہی اور جگہ جگہ سے بنیان پھٹ گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے ہم نے خود کو حد سے زیادہ فاسٹ بنانے کی کوشش کی، اس کوشش میں ہم اپنا بہت نقصان کر بیٹھے۔

نہ تو ایپس کے ہم متحمل تھے اور نہ ہی اس ڈیجیٹل ترقی کے سو اب ہماری نئی نسل ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ میرا خیال ہے کہ آج جب میڈیا کے اسٹوڈنٹس اس موضوع پر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ ہمیں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی نوجوانوں کی تربیت کرنی ہو گی اور ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد ان ایپس کے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔

میں فروہ مظفر کو بہت داد دیتا ہوں کہ اس نے اس اہم ترین موضوع کا انتخاب کیا اور نوجوانوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دی۔ ورنہ تو ہمارے نوجوانوں کو اس بات کا تو جنون تو ہے کہ انہیں ماڈرن بننا ہے، ڈیجیٹل ایرا میں خود کو بھی ڈیجٹلائز کرنا ہے مگر ڈیجیٹل ہونے کے نقصانات کے بارے نہ وہ نہیں سوچتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).