پاکستانی سیاسی جماعتیں اور فارن فنڈنگ کا معاملہ


بنگلہ دیش کے پہلے وزیر قانون کمال حسین صاحب بیان کرتے ہیں کہ نئے بننے والے بنگلہ دیش کو شدید مالی بحران کا سامنا تھا۔ ستمبر 1973 میں الجزائر میں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن صاحب اور سعودی بادشاہ شاہ فیصل کے درمیان ملاقات ہوئی۔ شاہ فیصل نے کہا کہ وہ بنگلہ دیش کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور اگر بنگلہ دیش اپنے آئین میں سیکولر شقوں پر نظر ثانی کرے تو اس مدد کے حصول میں سہولت ہو جائے گی۔ شیخ مجیب الرحمن صاحب نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور بنگلہ دیش کے آئین میں ان شقوں کی شمولیت کی وجہ بیان کی۔

پھر نومبر 1974 میں سعودی عرب میں کمال حسین صاحب اور شاہ فیصل کی ملاقات ہوئی۔ اس میں شاہ فیصل نے ان سیکولر شقوں کا مسئلہ دوبارہ اٹھایا اور کمال حسین صاحب کو پھر ان شقوں کی وضاحت کرنی پڑی۔ کم از کم مجیب حکومت نے بنگلہ دیش کے آئین کی سیکولر شقیں ختم نہیں کیں۔

(Bangladesh Quest for Freedom and Justice, by Kamal Hossain, published by Oxford University Press,p 191 -194)

کمال حسین صاحب کی گواہی سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی مدد مفت میں نہیں ملتی اس کے ساتھ ایسی سنگین شرائط بھی وابستہ ہو سکتی ہیں کہ اپنے آئین کی بنیاد کو تبدیل کرو تب ہم تمہیں کچھ مدد عطا کریں گے۔ یہ مالی مدد اس وقت اور تشویش ناک صورت اختیار کر لیتی ہے جب ایک ملک کے سیاست دان ذاتی طور پر دوسرے ملک کی حکومت یا غیر ملکی شخصیات سے مالی مدد وصول کر رہے ہوں۔

بد قسمتی سے پاکستان میں اسے ایک کھیل ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ صرف چند دنوں میں اس بارے ایسے تابڑ توڑ الزامات سامنے آئے کہ اگر کسی اور ملک میں ایسے الزامات لگائے جاتے تو کم از کم ان پر سنجیدہ تحقیقات ضرور شروع ہو جاتیں۔ پاکستان تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ کیس چل رہا ہے۔

اکیس جنوری کو احسن اقبال صاحب کا یہ بیان سامنے آیا کہ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب بڑا سکینڈل ہے اور تحریک انصاف اپنے ایجنٹ کے سر پر الزام دھر کے اپنی جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔ اور الزام کی سنگینی کے باوجود پاکستان الیکشن کمیشن چھ سال سے اس شکایت کا کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پایا۔

چند روز پہلے تحریک انصاف نے جمیعت علماء اسلام کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کرائی کہ ان کے ایک پرانے لیڈر حافظ حسین احمد صاحب نے خود ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام لیبیا اور عراق سے مالی مدد وصول کرتی رہی تھی۔

اس کو پانچ روز ہی گزرے تھے کہ عابدہ حسین صاحبہ نے یہ بیان داغا کہ اسامہ بن لادن ایک زمانے میں نواز شریف صاحب کو مالی مدد دیتے رہے تھے۔ اس پر انہوں نے یہ اضافہ کیا ’لیکن یہ ایک پیچیدہ کہانی ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ یہ پیچیدہ کہانی انہیں آج کیوں یاد آئی۔ اس کا اظہار پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟ اور اب بھی یہ کہہ کر تفصیلات بیان کرنے سے جان چھڑائی کہ یہ ایک پیچیدہ کہانی ہے؟

پڑھنے والوں کو سپریم کورٹ کا مشہور فیصلہ Suo Moto Case No. 7 / 2017 یاد ہو گا جسے محترم جسٹس فائز عیسی صاحب اور محترم جسٹس مشیر عالم صاحب نے تحریر کیا تھا۔ اس فیصلے کے صفحہ 23 اور 24 پر یہ لکھا ہوا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کی رجسٹریشن ہی ایسے شخص نے کرائی تھی جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر تھا۔ اور اس کے پاس صرف پاکستان کا نائی کوپ تھا۔ اس فیصلے یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاسی جماعت بیرون ملک سے مالی مدد لے رہی ہے اور قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے۔

یہ درست ہے کہ صرف الزام لگانے سے کوئی مجرم ثابت نہیں ہوتا۔ لیکن یہ الزامات تو بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر ان پر کوئی نتیجہ خیز تحقیقات سامنے نہیں آ رہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ تو اچھالا جا رہا ہے لیکن اس وائرس کا راستہ کیسے روکا جائے؟ کوئی بھی جماعت اس بارے میں ٹھوس تجاویز پیش نہیں کر رہی۔ کیا ایسے الزامات کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے؟

ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جب جیل میں اپنی مشہور کتاب If I am Assassinated لکھی تو انہوں نے اس میں یہی الزام اپنے سیاسی مخالفین پر لگایا تھا۔ اس کتاب کے ایک باب کا عنوان ہی ”فارن ہینڈ“ تھا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں کہ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران انہیں اتنی کثرت سے بیرونی کرنسی وصول ہوئی کہ پاکستان میں روپے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ قومی اتحاد کی ساری جماعتیں بیرونی مدد وصول کرنے میں شامل نہیں تھیں۔ بھٹو صاحب کے مطابق جو پارٹی بیرونی مدد وصول کر کے استعمال کر رہی تھی وہ جماعت اسلامی تھی، میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت اسلامی اس سلسلہ میں رابطے کا کردار ادا کر رہے تھے اور اس مالی مدد سے پاکستان میں فسادات کرائے گئے۔

(If I am Assassinated , Published by Classic p 161-171)

ان الزامات کا سلسلہ 70 کی دہائی میں بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ جب پاکستان بننے کے چند سال بعد 1953 میں پنجاب میں مذہبی فسادات شروع ہوئے اور لاہور میں مارشل لاء لگانا پڑا۔ جب ان فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی کارروائی ہو رہی تھی تو اس میں اس وقت کے مشہور اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے مالک خواجہ نذیر صاحب بھی بطور گواہ پیش ہوئے۔ ان کی گواہی کا نمبر 106 تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ فسادات کے زور پکڑنے سے قبل ہی وہ ایک وفد کے ساتھ پنجاب کے گورنر چندریگر صاحب سے ملے تھے۔

اس وفد کے اراکین نے گورنر صاحب سے دریافت کیا تھا کہ کیا انہیں علم ہے کہ جماعت اسلامی کو بعض امریکی مالی مدد دے رہے ہیں۔ اس پر گورنر صاحب نے کہا کہ ابھی یہ مسئلہ نہ اٹھائیں۔ اس پر عدالت نے خواجہ نذیر صاحب سے دریافت کیا کہ وہ کون سے امریکی ہیں جنہوں نے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو مالی مدد دی ہے۔ اس پر خواجہ نذیر صاحب نے کہا کہ اگر وہ کھلی عدالت میں یہ بتائیں گے تو اس سے بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہوں گیں۔ عدالت کی ہدایت پر انہوں نے ان امریکی باشندوں کے نام ایک کاغذ پر لکھ کر عدالت کو دیے۔

آپ یہ توقع کر رہے ہوں گے کہ عدالت نے سابق گورنر صاحب کو بلا کر یہ دریافت کیا ہو گا کہ کیا یہ بات درست ہے؟ یا اس الزام پر تحقیق کی ہو گی کہ کچھ امریکی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مالی مدد دے رہے ہیں۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ جسٹس منیر صاحب نے اپنی رپورٹ میں اس الزام کا ذکر تک نہیں کیا۔ عدالتی کارروائی میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ کاغذ عدالت کے حکم پر ضائع کر دیا گیا۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ الزام تو صرف الزام ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو۔ لیکن ایسے الزام پر تحقیق تو ہونی چاہیے۔ عدالت کسی الزام کو رد تو کر سکتی ہے لیکن اس طرح کسی گواہی کو ضائع کروا دینے کا مطلب یہی ہے کہ حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ امریکی صاحبوں کے بارے میں تحقیقات کون کرتا؟

اگر پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس طرح بیرونی مالی مداخلت ہوتی رہی تو پھر ہماری آزادی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس قسم کے الزامات پر ایک مرتبہ غیر جانب دار تحقیق کر کے حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ اس بیرونی مداخلت کا منحوس چکر ختم کیا جا سکے۔ اگر یہ الزامات غلط ہیں تو ان کی تردید ہو اور اگر درست ہیں تو مجرم سامنے آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).