ہم غلامی کے کس مرحلے میں ہیں؟


غلامی ایسی حالت کا نام ہے جس میں کوئی انسان دوسرے کے تابع ہو کر اس طرح سے زندگی بسر کرے کہ اس کے تمام فیصلوں کا اختیار اس کے آقا کے پاس ہو۔ غلامی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انسان ہمیشہ دوسرے کو اپنا زیر نگیں اور غلام دیکھنا چاہتا ہے۔

تاریخ انسانی غلامی ہی کی تاریخ ہے ۔ غلامی کا آغاز لالچ، نفرت، حقارت اور دوسروں پر غلبہ پانے کے جذبات سے ہوا اور یہی جذبات آج بھی انسان سے یہ مذموم کام کرا رہے ہیں۔ تکبر کی وجہ سے شیطان کو جنت سے نکالا گیا مگر اس نے انسان کے اندر اسی تکبر کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا کہ انسان ہر دور میں دوسرے انسان کو غلام ہی بناتا رہا ہے ، اگرچہ اس غلامی کی شکلیں بدلتی رہی ہیں۔

غلامی کے آغاز کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہے۔ انسانیت کی معلوم تاریخ میں پائے جانے والے قدیم قوانین کا مجموعہ، بابل کے بادشاہ حمورابی ( 1796۔ 1750 BC) کے قوانین کا ہے۔ یہ قوانین اب سے کم و بیش 3800 سال پہلے بنائے گئے۔ ان قوانین کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اولاد کو بھی اپنے والدین کی غلام سمجھا جاتا تھا اور اس کی خرید و فروخت کو بھی ایک نارمل بات سمجھا جاتا تھا۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غلامی کا آغاز جذبہ ہمدردی کی وجہ سے ہوا۔ جب جنگوں میں دشمن کے بہت سے سپاہی قیدی بنائے گئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کا کیا کیا جائے ، انہیں تہ تیغ کر دینے کی بجائے ان پر جسمانی غلبہ حاصل کرنے کی خواہش نے انہیں غلام بنا دیا۔ اب وہ انسان نہیں غلام بن چکے تھے۔ غلامی کسی ایک قوم کے لالچ، نفرت اور غلبے کی بنیاد پر شروع نہیں ہوئی بلکہ ہر قوم کا جذبہ اس میں کارفرما رہا ہے۔ بہرحال یہ طے ہے کہ غلامی کو جب ایک مرتبہ قابل قبول سمجھ لیا گیا تو اس کے بعد اس کی بہت سی شکلیں اور قسمیں وجود میں آ گئیں۔

جسمانی غلامی، نفسیاتی غلامی، قانونی غلامی اور ذہنی غلامی۔ غلامی کی سب سے کم موثر شکل جسمانی غلامی ہے اور سب سے بھیانک ذہنی غلامی ہے۔ آدمی جس کو خود سے بہتر تسلیم کرتا ہے ، اس کی عادات و اطوار چال ڈھال، لباس اور بولنے کا انداز تک بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ سپین پر جب مسلمانوں کی حکومت تھی تو اس وقت عیسائی نام تک مسلمانوں جیسے رکھتے تھے۔ آج ہم اس کا الٹ کر رہے ہیں۔

جب ایک انسان مختلف ذرائع سے دوسرے کے جسم پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنا قیدی بنا لے تو یہ جسمانی غلامی کہلاتی ہے، اس کے برعکس جب کوئی شخص نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی غلام بنا لے تو اسے نفسیاتی یا ذہنی غلامی کہا جاتا ہے۔ غلامی کسی بھی قسم کی ہو، غلامی ہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان دوسرے کا محتاج ہو جایا کرتا ہے ، کبھی جسمانی لحاظ سے تو کبھی ذہنی اور روحانی طور پر۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا

دنیا میں حقیقی طور پر کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔ آزاد وہ ہے جو معنوی طور پر آزاد ہے مگر ہم اس دنیا میں اپنے نفس، ہوس اور خواہشات کے غلام ہیں۔ اور جس کی فکر غلام ہے چاہے وہ دنیا کا بادشاہ ہی کیوں نہ ہو ، حقیقت میں غلام ہے ۔ غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کرنا بیوقوفی ہے۔ آج اسی کا ہے جو“ اپنی ہمت ”سے اپنا مقدر خود بنائے، لیکن جو اپنے فرائض کو بھی مطالبہ بنا کر پیش کرے مثلاً اپنا تحفظ کرنا ہمارا اپنا فریضہ ہے لیکن اگر ہم تحفظ کے مطالبے اور تحفظ کی بھیک مانگنا شروع کر دیں تو ہماری خودی نابود ہو جائے گی کیوں کہ بقول اقبال“ خودی از سوال ضعیف می گردد ”کہ خودی مانگنے سے کمزور ہو جاتی ہے۔ مطالبات بھی ایک گدائی ہے۔

ماضی میں غلام بنانے کا سب سے پرانا اور کارگر طریقہ جنگ تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ناکام ہو گیا کیونکہ لوگ اپنے آقاؤں سے نفرت کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی انہیں مار بھگاتے تھے۔ ایسی حکمرانی میں فوجی اخراجات بہت زیادہ ہوتے تھے۔ تو حاضر دماغ حاکموں  نے دوسرے طریقے نکالنے شروع کیے ۔ جنگ بھی نہ ہو اور وسائل پر گرفت اور قبضہ بھی ان کا ہو۔

برطانیہ نے دنیا پر جسمانی طور پر حکومت کی۔ جہاں قبضہ کیا وہاں خود گئے مگر ایک دن اسے ان تمام کالونیوں کو چھوڑنا پڑا۔اس سے باقی استعماری طاقتوں نے سبق سیکھا اور دنیا کو معاشی غلامی کی طرف لے گئے۔ یہ بھی غلام بنانے کا طریقہ ہی ہے جو آج کل رائج ہے۔ اس میں بظاہر کوئی زبردستی نہیں کی جاتی اور لوگوں کو غلامی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ان سے ٹیکس یا سود قانونی طریقے سے وصول کیا جاتا ہے اور لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اس رقم سے ان کی اپنی بہتری اور حفاظت کے کام کیے جائیں گے۔ ان کے آقا ان کے لیڈر اور محافظ بن جاتے ہیں۔ یہ طریقہ اگرچہ سست رفتار ہے مگر دیرپا ہوتا ہے۔

لوگوں پر مذہبی پابندی ہوتی ہے نہ سفر کرنے کی اور نہ ہی آزادی خیال کی۔ وہ الیکشن میں چناو کی بھی آزادی رکھتے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ انہیں غلام بنایا جا چکا ہے اور ان ہی کے اپنے لوگ عوام کی دولت آقاؤں تک منتقل کرتے ہیں۔ آج کے زمانے میں میں آئی ایم ایف ایسے آقا کا کردار ادا کر رہا ہے۔

دنیا کی بڑی تہذیبوں کی اوسط عمر دو سو سال رہی ہے۔ ایسی ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک۔ پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک۔ پھر عزم اور حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک۔ پھر آزادی سے خوشحالی اور پھر خوشحالی سے خودغرضی تک۔ خودغرضی لا تعلقی کا سبب بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے۔ بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔

ہم نے 1947 میں آزادی حاصل کر لی۔ مذہبی عقائد اور عزم و حوصلہ کی بدولت ہم نے اپنے لیے الگ وطن حاصل کر لیا۔ مگر کئی ایک وجوہات کی بنا پر ہم خوشحال نہ ہو پائے اور اس غربت کی حالت کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر خود غرضی بھی ڈال دی گئی ہے۔ یہ لسانیت اور صوبائیت کی خود غرضی ہے اور پھر امیر غریب کا فرق بھی بدرجہ اتم ہے۔ یہ فرق بے حسی کی وجہ سے ہے اور یہ بے حسی انحصار کی ماں ہے۔ انحصار ہی غلامی کی پہلی سیڑھی ہے۔

اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم کس مرحلے میں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).