بیورو کریسی اچھے افراد کی صلاحیت کیسے برباد کرتی ہے؟



کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے دفتروں میں خوشی خوشی اپنے فرائض سر انجام دیں۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے ہماری ایسی قدر کریں جیسے ایک خاندان کے افراد ایک دوسرے کی کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں جیسے ایک خاندان کے افراد ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو کنٹرول کرنے میں خوشی محسوس نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کے راستے کے پتھر اٹھانے میں فخر محسوس کریں۔ فیصلہ سازی کی قوت کو وہاں پہنچا دیں جہاں پر درحقیقت کام ہو رہا ہے۔

خاندان کا ایک فرد جب کوئی امتیازی کامیابی حاصل کرتا ہے تو دیگر اہل خانہ کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔  جب کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والا ہمارا ٹیم ممبر اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے دیگر ٹیم ممبرز عام طور پر عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ منیر نیازی کی سحر طاری کر دینے والی شاعری کی رو سے نہ جانے کیوں ہمارے اداروں میں اپنے اعلیٰ آدمی کو نفسیاتی اعتبار سے قتل کرنے کا دستور موجود ہے۔

جب بھی کسی ادارے کے ملازمین کی تعداد دو تین سو سے تجاوز کر جاتی ہے تو بیورو کریسی کا عفریت اسے چمٹ جاتا ہے۔ ادارے کے مختلف شعبے اپنے اپنے دائروں میں مقید ہو جاتے ہیں۔ سائلین کی فائلیں ایک شعبے سے دوسرے شعبے تک کا سفر کرتی رہتی ہیں اور ان پر وقت کی دھول جمتی جاتی ہے۔ حرکت کچھوے کی رفتار سے ہوتی ہے اور سفر کٹتا نہیں ہے بلکہ کاٹنے کو دوڑتا ہے۔

بیوروکریٹ صرف سول سروس کی افسر شاہی ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ بیوروکریسی کسی کے بھی مزاج کا کسی بھی وقت حصہ بن سکتی ہے۔ جب بھی کوئی انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کو زندگی اور امکانات سے بھرپور نہیں سمجھتا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے بطور آلہ کار کے استعمال کرتا ہے تو پھر وہ بیوروکریٹ کی ٹوپی پہن لیتا ہے۔ جب بھی کوئی پروفیشنل اپنے ذاتی مفاد کے لیے ادارے کے مجموعی مفاد کو داؤ پر لگا دیتا ہے تو وہ بیوروکریسی کے مسلک کا سالک بن جاتا ہے۔

جب بھی طبی عملہ کسی جاں بلب زخمی مریض کا علاج کرنے سے پہلے اسے متعلقہ پولیس سٹیشن میں حادثے کا اندراج کروانے کا حکم صادر کرتا ہے تو وہ مسیحائی کا چولا اتار کر بیوروکریٹ کا لباس زیب تن کر لیتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے دو طبقات میں تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب مٹھی بھر بیوروکریٹ ہیں اور دوسری جانب بے بس عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ سرخ فیتہ عوام کی رگوں میں دوڑتے ہوئے سرخ لہو کو خشک کر رہا ہے۔

ہر وہ ادارہ جہاں فیصلہ سازی کی قوت انتظامیہ کے چند گنے چنے لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی ہے وہاں پر بیوروکریسی کا طوطی بولتا ہے۔ پربت کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے آٹے میں نمک کے برابر یہ لوگ پربت کی چوٹی پر پہنچنے کی خواہش رکھنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ یہ عوام کو بکرا بنا کر ذبح کرتے ہیں اور ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھنے کا تکلف بھی نہیں کرتے۔

بیوروکریٹک مزاج رکھنے والے افراد پلاسٹک کے بنے ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ صرف اپنے حکم کی تعمیل پر مصر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے اندر دھیرے دھیرے زندگی اور جدت کی حرارت دم توڑنا شروع کر دیتی ہے۔ بیوروکریٹک مزاج کے حامل حاکم جب اپنے اداروں میں کسی میٹنگ کا اہتمام کرتے ہیں تو سب کو ہمہ تن گوش ہونا پڑتا ہے اور تائید میں مسلسل سر کو ہلانا پڑتا ہے۔ اپنے ذہن سے سوچنے والوں کو نکو بنا دیا جاتا ہے۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ دماغ اللہ تعالیٰ نے صرف بیوروکریٹ کو دیا ہوتا ہے جبکہ اس کی ٹیم کے باقی اراکین تو صرف ٹانگیں ہوتی ہیں جن کا کام بھاگ بھاگ کر صاحب کے احکام کی بجا آوری کرنا ہوتا ہے۔

جب مرکز صوبوں کو اختیارات نہ دے اور صوبے بلدیاتی اداروں کو اختیارات منتقل نہ کریں تو اس کے پس منظر میں بھی کسی بیوروکریٹ کا مزاج کار فرما ہوتا ہے۔ بیوروکریٹ کو اختیارات کے ارتکاز سے توانائی ملتی ہے اور اختیارات کی تقسیم اسے نقاہت کا شکار کر دیتی ہے۔

بیوروکریسی کی آکاس بیل جب اداروں پر چڑھتی ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والے افراد قسطوں میں مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ مسکرانا بھول جاتے ہیں۔ وہ بگ باس کی چشم ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ آغاز کار سے دست بردار ہو جاتے ہیں اور بس اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انہیں کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ وہ مسائل کے حل کے لیے تخلیقی انداز میں سوچنا ترک کر دیتے ہیں اور ڈنگ ٹپانے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

ہمیں اگر اپنے سرکاری و نجی اداروں میں صور اسرافیل پھونکنا ہے اور وہاں پر کام کرنے والے افراد کو حیات نو عطا کرنی ہے تو پھر ہمیں بیورو کریٹک مزاج کے حامل افراد کو اختیار کُلی کے سنگھاسن سے اتارنا ہو گا اور ان کی جگہ ایسے لوگوں کی تاج پوشی کرنا ہو گی جو جمہوری سوچ کے حامل ہوں اور فیصلے اجتماعی دانش کو متحرک کر کے کرنے کے عادی ہوں۔ جو فاصلے بڑھانے کی بجائے پل بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ جو یہ جان چکے ہوں کہ پورا سچ کبھی کسی ایک فرد کو نظر نہیں آتا ہے ، بے شک وہ ادارے کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ ایک انسان ہی ہے جو کسی بھی دوسرے انسان کی طرح اپنے تعصبات کا شکار ہے اور ارتکاز اختیارات کے باوجود احساس عدم تحفظ سے خوفزدہ ہے۔

جب تک اختیارات ان لوگوں تک منتقل نہیں ہوں گے جو حقیقی مرد میدان ہیں، بیوروکریسی کا بھوت بھیس بدل بدل کر ہمارے اداروں میں حقیقی معنوں میں کام کرنے والوں کے لے موت کا فرشتہ بنا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).