کامریڈ بلوچ: اس اندھیر نگری میں ایک دیا جلتا ہے


\"\"بوڑھے درویش حضرت خان عبدالغفار خان نے کہا تھا، ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے۔ ہم نتائج سے بے نیاز ہوکر فقط اپنے حصے کی بات ہر چھوٹے بڑے تک پہنچائیں گے۔ کوئی ہماری بات نہیں سنتا، تو نہ سنے، ہم مایوس نہیں ہوں گے۔ ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو ذاتی اغراض کے لیے کام کرتے ہیں۔

ان الفاظ کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہیں گے؟ چلیے، میرے ساتھ کراچی کے ایک پسماندہ علاقے لیاری چلیے۔ چیل چوک سے دو قدم گبول پارک ہے۔ اس کے اطراف میں تنگ و تاریک گلیوں کے سوا کیا ہے۔ یہاں گٹر ابلتے ہیں اور منشیات بکتی ہے۔ ان خستہ اور شکستہ گھروندوں پہ بندوق راج کرتی ہے۔ غربت نے تعلیم کو یہاں سے بے دخل کر رکھا ہے۔ جہالت نے شعور پہ عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اس اندھیر نگری میں ایک دیا جلتا ہے، جو باچا خان کے لفظوں کا ایک مجسم پیکر ہے۔ ان سے ملیے، ان کو آسان لفظوں میں واحد بلوچ کہتے ہیں۔ آسان ترین لفظوں میں کامریڈ واحد کہتے ہیں۔

سامنے اس کتھئی دروازے کو دیکھیے۔ یہ جس کے برابر میں دو چاک گریباں بزرگ بیٹھے گٹکا چبا رہے ہیں۔ یہی جس کے دوسری طرف ایک بچی تھال رکھے چنے بیچ رہی ہے۔ یہ واحد بلوچ کا گھر ہے۔ دستک دیجیئے۔ انتظار، انتظار، کون؟ فرنود، اسلام آباد سے آیا ہوں۔ یہ بچی جس نے دروازہ کھولا ہے، جانتے ہیں کون ہے؟ اسے ہانی بلوچ کہتے ہیں۔ عظیم باپ کی عظیم بیٹی۔ کراچی سے لاہور تک میڈیا سے لے کر عدالت تک، یہی بچی تھی جو باپ کا مقدمہ لڑ رہی تھی۔ یہ جنگ اس بچی نے جس خوش اسلوبی سے لڑی ہے، دیکھیے تو ششدر رہ جایئے۔ واحد بلوچ نے جس کی تربیت کی ہو، وہ کیوں نہ جانے کہ فرد کی آزادی اور بنیادی حق کی جنگ کس بردباری سے لڑی جاتی ہے۔ کسی سانحے پر خیرات کے تیل سے شمعیں روشن کرنے کا ہنر تو نو عمر و عمر رسیدہ خواتین و حضرات نے نائن الیون کے بعد سیکھا ہے، مگر واحد بلوچ نے یہ روایت تب اٹھائی تھی جب ڈی ایس ایل آر تو کجا چھتیس کی ریل والا کیمرہ بھی اس کی دسترس سے باہر تھا۔

جنرل ضیا کے دور کا تصور کیجیے۔ پھر یہ دیکھیے کہ ایک شخص تن تنہا بینر اٹھائے لاہور کی سڑک پہ اس لیے بیٹھا ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے مسیحی پڑوسیوں پر ذاتی نوعیت کی کسی چپقلش کی وجہ سے تشدد کیا ہے، مگر اس کی وجوہات مذہبی بتائی جا رہی ہیں۔ واحد بلوچ احترامِ انسانیت کے سوا ہر چیز کو ثانوی قرار دے چکا ہے۔ پچیس برس قبل واحد بلوچ جب سول اسپتال میں ٹیلیفون آپریٹر لگتا ہے تو اپنی میز پر دو گلاس رکھے ہوئے دیکھتا ہے۔ ایک اسٹیل کا دوسرا کانچ کا۔ تیسرے دن احساس ہوتا ہے کہ اسٹیل کا گلاس یہاں دو غیر مسلم ملازمین کے لیے رکھا گیا ہے۔ واحد بلوچ کانچ کا گلاس توڑ کر غیر مسلموں کے لیے مختص جام کو منہ سے لگاتا ہے۔ پیاس کا بھی بھلا کوئی مذہب ہوتا ہے؟ پانی کا بھی بھلا کوئی مسلک ہے؟ انسان تو ہندو مسلم ہوا کرتے تھے، یہ گلاس کب سے مسجد مندر جانے لگے؟

واحد بلوچ کے حجرے میں بے نیازی کتابوں سے ٹیک لگائے بیٹھی رہتی ہے۔ وہ درویش ہے اور اس کا حجرہ سکون کا آستانہ۔ آدھے کمرے کو کتابوں نے گھیر رکھا ہے، جو الماری اور شیلف کی فکر سے آزاد ہیں۔ واحد بلوچ سول ہسپتال پیدل جاتا ہے اور پیدل آتا ہے۔ ہفتے کے دو ہزار روپے کرائے کے بچا کر اتوار کی صبح ریگل چوک کے فٹ پاتھوں پر پہنچ جاتا ہے۔ کم از کم بھی چھ گھنٹے کتابوں کی چھانٹ کرتا ہے۔ کم قیمت میں زیادہ سے زیادہ کتابیں خرید لاتا ہے۔ کتاب سے بڑا کوئی سرمایہ نہیں۔ پھر وہ سرمایہ جو آپ نے اپنی محنت کا عرق نچوڑ کر اکٹھا کیا ہو۔ مگر ایثار تو دیکھیے ذرا۔ ملیر کے بلوچ دوستوں نے پسماندہ علاقے میں افادہ عامہ کے لیے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی۔ سینہ بسینہ یہ خبر لیاری پہنچی، تو ایک ایک روپیہ جوڑ کر کتابیں جمع کرنے والے واحد بلوچ نے چھ ہزار کتابیں کتب خانے کے نام کر دیں۔ رات کے آخری پہر جب وہ کتابوں کی آخری پیٹی کسنے لگے تو بیٹی ہانی بلوچ نے ہاتھ جوڑ کر کہا، بابا آپ یہ کتابیں کسی کو مت دیں نا آپ کو میری قسم ہے۔ واحد بلوچ نے ننھی سی ہانی سے کہا، پگلی کتابیں کس لیے ہوتی ہیں؟ پڑھنے کے لیے نا؟ تو میں لائبریری میں دے رہا ہوں، خود بتاو کوئی ان کتابوں کو پڑھ کر علم وشعور کی تھوڑی سی بھی روشنی حاصل کرے گا تو تمہیں کتنا ثواب ہوگا؟ ہانی نہ مانی۔ بچی روتی رہی اور باپ بوجھل دل مگر مطمئن احساس کے ساتھ کتابوں کا پشتارا اٹھائے ملیر پہنچ گیا۔

وقت گزر جاتا ہے۔ آج پھر واحد بلوچ کے آستانہ پر کتابوں نے اتنی جگہ گھیر لی ہے کہ مہمانوں کے لیے بمشکل جگہ بچے۔ کتابوں کی رخصتی پر رونے والی ہانی، آج جب ملیر میں شعور و آگہی کی شمعیں جلتی دیکھتی ہے تو ایسے باپ پر فخر جتلاتی ہے جسے علم سے محبت ہے۔ جسے انسان سے پیار ہے۔ واحد کو بچوں سے پیار ہے۔ بالکل ایک جذباتی ماں کی طرح، جو اپنے احساسات کو چھپا نہیں سکتی۔ واحد کا دل ہر اس گھر میں دھڑک رہا ہے جہاں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ واحد بلوچ آج بھی ایک ٹیلیفون آپریٹر ہے۔ اس کے گرد بیٹھا ہر شخص اسے استاد محترم کہہ کر پکارتا ہے، کیوں؟ واحد نے لیاری کی انہی گلیوں میں کچھ نادار بچوں کو جمع کیا۔ کچھ لوگوں سے کتابوں کی بھیک مانگی اور کچھ کتابیں اپنی جیب سے خرید لایا۔ بچوں کو قلم کتاب پکڑا کر کھلے آسمان تلے ننگی زمین کی درس گاہ میں بٹھا دیا۔ واحد بلوچ اس درس گاہ کا واحد استاد ہے۔ تعلیم بھی دے رہا ہے، تربیت بھی کر رہا ہے۔ یہ وہ بچے تھے جن کی اگلی نسل بھی تعلیم حاصل کرنے کا تصور نہیں کر سکتی تھی۔ آج یہ بچے بڑے، اور بہت بڑے ہوگئے ہیں۔ کوئی ادبی میگزین چلا رہا ہے، کوئی اخبار کا ایڈیٹر ہے، کوئی سیاسی جماعت کا رہنما ہے، کوئی شاعری میں ہنر آزما رہا ہے، کوئی ستار کی تاروں سے کھیل رہا ہے۔ یہ اصحابِ علم و ہنر، جن کے پاس کوئی ڈگری نہیں، اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر مبارک علی ان کے استاد ہیں۔ یعنی وہ بچے جو اسکول میں نہیں، کالج میں نہیں، ایک فٹ پاتھ پہ پڑھے ہیں، ڈاکٹر مبارک علی سے انہیں نسبت ہے۔ کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ واحد بلوچ ہر ماہ کے آخری ہفتے میں ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر شیر شاہ سید جیسے اساتذہ کو لیاری میں ایک ابلتے گٹر سے کچھ فاصلے پر ان بچوں سے ملوانے لے آتے تھے؟ عظیم ہے واحد بلوچ جو انہیں بلا لاتے، عظیم تر ہیں ڈاکٹر مبارک علی، جو اس تاریک نگر میں امید کے دیے روشن کرنے چلے آتے۔

\"\"واحد بلوچ کا یہ ورثہ ہانی اور ماہین نے اٹھا لیا ہے۔ ماہین سترہ برس کی بچی ہے۔ صرف سترہ برس۔ اندازہ کیجیے کہ یہ بچی روزانہ لیاری کے ستر بچوں کو بلا معاوضہ پڑھاتی ہے۔ گلیوں سے بچے پکڑ پکڑ کر لاتی ہے، اس سے پہلے کہ وہ منشیات کے عادی ہوجائیں، ماہین انہیں پینسل کٹر اور ریزر سے اٹھنے والی مہک کے نشے میں مبتلا کر دیتی ہے۔ آپ میرا یقین کیجیے یہ بچی یہ تک پرکھ لیتی ہے کہ میرے کس شاگرد کو قدرت نے کن مہارتوں سے مالا مال اتارا ہے۔ ماہین کسی کی ریاضی سنوار رہی ہے تو کسی کے ننھے وجود میں چھپے آرٹسٹ کو آشکار کر رہی ہے۔ کسی کی انگریزی درست کر رہی ہے تو کسی کی الجبرا سدھار رہی ہے۔ باپ کرائے کے پیسے بچا کر بچوں کے لیے کتابیں خرید رہا ہے، بیٹی ان بچوں کو پڑھا رہی ہے۔ ماہین فخر سے کہہ رہی ہے ’’سر ان بچوں میں سے بہت سے اب اسکول جا چکے ہیں‘‘۔ میں نے کہا تھا نا کہ اس سترہ برس کی بچی کا کردار تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرنے والی بیس این جی اوز پر بھاری ہے؟ کراچی ادبی میلے میں دستاویزی فلم کا ایک مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں اسکول کے بچوں نے اساتذہ کی نگرانی میں حصہ لینا تھا۔ ماہین نے لیاری کی گلیوں سے کچھ ممولے اٹھائے اور شاہینوں سے لڑوانے پہنچ گئی۔ ایک فلم تیار کی جس کا عنوان ’’ہم انتہاپسندی کو شکست دیں گے‘‘ رکھا۔ جو اساتذہ تعلیمی اداروں سے اپنے شاگردوں کو لائے تھے، وہ دیکھتے رہ گئے اور ماہین بلوچ کے ممولے، جن کا والی وارث پندرہ برس کی ماہین کے سوا کوئی نہیں تھا، پہلے انعام کے حقدار ٹھہر گئے۔

واحد بلوچ شکوہ نہیں کرتا، واللہ نہیں کرتا۔ صلہ نہیں مانگتا، بالکل نہیں مانگتا۔ وہ صرف اپنا احتساب کرتا ہے۔ خود سے پوچھتا ہے کہ تم نے سماج کو کیا دیا؟ لیاری کی انہی گلیوں میں جب بندوق بے تکان بولتی تھی، سبین محمود بھاگی دوڑی چلی آئیں۔ ان تنگ وتاریک گلیوں میں وہ تنہا پہنچی، دروازے پہ دستک دی، واحد بلوچ نکل آئے۔ سبین نے منت کر کے کہا، واحد پلیز تمہیں خدا کا واسطہ ہے بچوں کو ساتھ لو اور نکلو اس علاقے سے، میں نے تمہاری رہائش کا بندوبست کر دیا ہے۔ واحد بلوچ نے سبین کو حجرے میں بٹھا کر کہا، میں چلا جاؤں گا بس مجھے یہ سمجھا دیجیے کہ لیاری کے ان محروم بچوں کا کیا ہوگا۔ سبین نہیں جانتی تھی کہ جس واحد بلوچ کی جان کی اسے فکر ہے، اس واحد سے پہلے خود اس کا اپنا خون نوکِ سناں پر بولے گا۔

بچوں کا ذکر آتے ہی واحد بلوچ کے لہجے میں ایک مشفق دادی بولنے لگتی ہے۔ کہتا ہے، ایوب خان کو لوگ بھول گئے ہوں گے مگر میری جنگ ابھی جاری ہے۔ جنرل ضیا کی داستان ختم ہوگئی ہے مگر میری پنجہ آزمائی ابھی جاری ہے، جو میں نے جیتنی ہے۔ کامریڈ کون سی جنگ کیسی پنجہ آزمائی؟ واحد کہتا ہے، لیاری کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔ لیاری کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے جنرل ضیا کی آمریت کو چیلنج کیا تھا۔ ہمیں سوچ سمجھ کر جہالت دی گئی ہے۔ ہمارے بچوں کو جانتے بوجھتے منشیات پر لگایا گیا۔ ہماری بچیوں سے باقاعدہ قلم چھینا گیا۔ میری جنگ باقی ہے۔ میں نے قلم لوٹانا ہے، میں نے شعور لوٹانا ہے۔

واحد بلوچ کے ساتھ بیٹھے ہمیں پانچ گھنٹے ہوگئے ہیں۔ ان پانچ گھنٹوں میں واحد بلوچ نے سیکورٹی اداروں سے اپنی گرفتاری کی مد میں کوئی شکوہ نہیں کیا۔ اپنی حراست پہ کسی تلخی کا اظہار نہیں کیا۔ بہت اکسانے اور کھوجنے پر بھی صرف اتنا کہتے ہیں، رینجرز والے بیچارے بھی تو ملازم ہیں۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کی ڈیوٹی تھی، مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ پڑھنے کو کوئی کتاب نہیں دی۔ میں نے ازراہ تفنن کہا، وہ جان گئے ہوں گے نا کہ کتاب ہی آپ کا ہتھیار اور کتاب ہی آپ کی عیاشی ہے، اگر کتب بینی کی عیاشی ہی میسر آجاتی تو پھر یہ قید بامشقت تو نہ ہوتی نا صاحب۔ ہنس کر بولے، گرفتاری سے کچھ دن پہلے آدھی رات رینجرز اہلکار میرے گھر میں گھسے چلے آئے۔ چیختے چلاتے کہا، اسلحہ کہاں رکھا ہے؟ میں انہیں ہاتھ سے پکڑ کر اوپر لے گیا۔ کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کر کے میں نے کہا ’’یہ رکھاہے اسلحہ، جتنا چاہیئے اٹھا کر لے جاؤ‘‘۔ واحد بلوچ کو کراچی ٹول پلازے پر رینجرز اہلکاروں نے ایک بس سے اتارا تو ہاتھ میں کچھ کتابیں تھیں۔ اترتے اترتے بس میں ایک شناسا چہرے پر نظر پڑی، کتابیں اس کی جھولی میں پھینک دیں۔ ایسا شخص جیل پہنچا تو پڑھنے کو کتاب میسر تھی نہ لکھنے کو قلم دستیاب تھا۔ بہت اصرار کیا، مگر کتاب نہ ملی۔ واحد بلوچ نے کہا، ترجمے والا قرآن ہی دے دو۔ ایک ہفتے بعد ترجمے والا قرآن دے دیا گیا۔ واحد بلوچ نے چار سو دنوں میں قرآن کا لفظ بلفظ سات بار مطالعہ کیا۔ واحد بلوچ اب قران کو داس کیپیٹل سے اور داس کیپیٹل کو قرآن سے برآمد کرتے ہیں۔ میں نے کہا، شاید اسی لیے کارل مارکس سے متعلق اقبال نے ’’نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب‘‘ کہا تھا۔ سنتے ہی واحد بلوچ نے کتابوں کے ڈھیر میں رکھی عبیداللہ سندھی کی سوانح کی طرف اشارہ کیا کہ اب اسے میں دوبارہ پڑھوں گا۔ واحد نے اشارہ عبیداللہ سندھی کی کتاب کی طرف کیا، میری نظر پھسلتی ہوئی عظیم بلوچ ادیب عبداللہ جمال دینی مرحوم کی کتاب پر جا اٹکی۔ میں نے کہا، کامریڈ۔! آپ کی اسیری کے عرصے میں ہی عبداللہ جمالدینی وفات پاگئے تھے، خبر ہوئی تھی؟ یہ سوال کر کے مجھے دکھ ہوا، کیونکہ کامریڈ یکایک دکھ میں گھر گئے۔ میرا ہاتھ پکڑکے کہنے لگے، میں نے جیل میں خواب دیکھا کہ ایک اخبار کے فرنٹ پیج پر کوئی خبر نہیں، پورے صفحے پر صرف بابا جمالدینی کی اداس سی تصویر چھپی ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہی آنکھ کھل گئی۔ صبح ہوتے ہی سنتری سے پوچھا، اخباروں میں ادیب عبداللہ جمالدینی سے متعلق کوئی خبر ہے؟ سنتری کو خاک خبر؟ بابا جمالدینی کو تو جامعات کے اساتذہ نہیں جانتے۔ قفس کھلنے کے دن آئے تو ایک باذوق ہستی سے جمالدینی صاحب کا پوچھا۔ اس نے بتایا، وہ تو انتقال کر گئے۔

واحد بلوچ کا پنجرہ کھلا تو گھر نہیں گئے۔ رنچوڑ لائن کی مارکیٹ میں ایک دکان ڈھونڈنے نکل گئے۔ دکان ملی، دکان والے سے کہا، رینجرز اہلکار جب مجھے بس سے اتار رہے تھے تو تمہاری جھولی میں کچھ کتابیں میں نے پھینکی تھیں، کہاں ہیں؟ دکان دار دیانت دار نکلا۔ اس نے کتابیں جیسی کی تیسی واپس لوٹا دیں۔ واحد بلوچ کتابیں بغل میں دابے گھر یوں چلے آئے جیسے صبح کے گئے شام دفتر سے لوٹے ہیں۔ پہنچتے ہی پہلا سوال ماہین سے کیا، بچوں کی پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ ماہین نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، بابا کیسے پڑھاتی، ہم تو در بدر بے آسرا و بے سہارا ہوگئے تھے۔ واحد بلوچ کو صدمہ ہوا۔ واحد بلوچ کے لیے ایک سو بیس دن کی قید میں درد کا تنہا یہی پہلو ہے۔

واحد نے بیٹی کی طرف دیکھ کر کہا، میری بیٹی پھر سے پڑھائے گی نا؟ ماہین نے بابا کا ہاتھ پکڑ کر کہا، اب پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کے پڑھاؤں گی بابا۔

واحد بلوچ سے اب اجازت لیتے ہیں۔ آپ کو اس ملاقات میں جانے کیا ملا، مجھے تو مرشد کامل مل گیا۔ چلیے، مرشدوں کے مرشد حضرت باچا خان کے الفاظ پھر سے دہراتے ہیں۔ فرمایا، ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے۔ ہم نتائج سے بے نیاز ہوکر فقط اپنے حصے کی بات ہر چھوٹے بڑے تک پہنچائیں گے۔ کوئی ہماری بات نہیں سنتا، تو نہ سنے، ہم مایوس نہیں ہوں گے۔ ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو ذاتی اغراض کے لیے کام کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments