عمران خان اور جمہوریت کا المیہ


گزشتہ دنوں عمران خان نے بڑے دھڑلے سے عوام کو یہ سمجھانے کی سعی کی ہے کہ بار بار الیکشن کروانا جمہوریت کا المیہ ہے۔ اور ایک منتخب حکومت کو اپنی پالیسی کے تسلسل کے لئے پانچ سال ناکافی ہیں۔ عمران خان اب تک بہت ساری ایسی باتیں کہہ چکے ہیں کہ ان کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں اور نہ ان کو ان باتوں کا کوئی احساس یا پشیمانی ہوتی ہے کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔ کچھ وقت تو یوٹرن کے علمبردار ٹھہرے اور اخر کار خود ہی یوٹرن کو بڑے سیاستدانوں کا وتیرہ گردان کر سب کو سمجھانے کے لئے ایک عمرانی نسخہ عطا کیا۔

اب جو نیا نسخہ اپنے عمرانی مطب سے مشہوری کی لئے مارکیٹ میں لائے ہیں، اس کا فارمولہ بالکل خاندانی حکیموں والہ ہے جو اپنے ہی خاندان میں چلتی رہتی تھی اور باہر کسی کو منتقل کرانے کے لئے ممنوع ہوا کرتی تھی، اب اس فارمولے کے تحت عمران خان نے پالیسی کے تسلسل کا یہ حل نکالا ہے کہ یہ حکومتی تسلسل بھی ایک ہی پارٹی کے اندر چلتا رہے، کوئی خود احتسابی اور عوامی احتساب یعنی انتخابی عمل سے مبرا رہے اور تب تک اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاہ اور سفید کے تماتر سیاسی امور اور رموز کا بلا شرکت غیرے مالک اور خالق رہیں جب تک وہ چاپیں۔

عام بندہ بھی جب بات کرتا ہے تو بولنے سے پہلے اپنی بات کے تاریخی شعور کا جائزہ لیتا ہے اور ساتھ ساتھ مستقبل کے اثرات کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔ لیکن یہاں تو ماضی کے تاریخی شعور تو کیا مستقبل کے اثرات کو بھی تہہ و بالا کیا گیا ہے، تاریخی شعور اور مستقبل کے اثرات ساتھ ساتھ اس ندیدے پن میں دم گھٹنے کی وجہ سے چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ یہاں تو یہ عمل اتنی بار دھرایا گیا ہے کہ ہر بار عشرے عشرے تک ایک ہی فرد یا بقول شخصے فرد واحد کالے اور سفید کا مالک رہا ہے، پر پالیسی کے تسلسل کا اثر ہر بار ترقی معکوس کی شکل میں یا پھر دیگر مسائل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

ایوب خان کا تسلسل اگر تاریخ کا حصہ ہے تو بیس خاندانوں کی اس پالیسی کے ہوتے ہوئے نمایاں ہوجانا بھی اسی پالیسی کے تسلس کا دین ہے۔ پینسٹھ کی جنگ، سیٹو سنٹو کا داغ ملامت، مادر ملت کو سیاسی عمل کے داؤ پیچ سے ہروانا اور دیگر سیاسی، اخلاقی اور سماجی عوامل اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح جنرل یحیی کی کارستانیاں اور جنرل رانی کے سیاسی عروج ایک اور پالیسی کے تسلسل کا منہ بولتا اور خون کھولتا ثبوت ہے۔

جنرل ضیا الحق نوے دنوں کی مختصر سی پالیسی کے ساتھ آئے تھے پر گیارہ سال تک اپنی پالیسی کو طول دے گئے اور ان گیارہ سالوں میں جو کچھ ہوا اس کے اثرات اتنے طویل ہیں کہ واقعی اج تک ہم ان طویل دورانئے کے ڈرامے کے قسطوں کو بار بار بھگت رہے ہیں۔ غیر جماعتی الیکشن، اور نچلے لیول کے افراد کا اونچے لیول پر آنا اور سیاسی فضا کو پراگندہ کروانا، سمگلنگ، کلاشن کوف کلچر، دہشت گردی اور فرقہ پرستی کو پروان چھڑانا، پھر یہ تسلسلی عمل ایک اور جنرل کیری کر کے اگے بڑھے اور اٹھ نو سال تک کھینچ کر لے گئے اور ان نو سالوں کے دوران جو کچھ عوام کے ساتھ کیا اپنی ہی لکھی ہوئی کتاب میں ایک سند کے طور ہر چھوڑ گئے ہیں۔

کارگل کا معرکہ ہو یا لال مسجد کی کارروائی ہو۔ بگٹی کا قتل ہو یا بارہ مئی کا واقعہ ہو، عوام کی خرید و فروخت ہو یا اپنے ہی لوگوں پر بمباری کروانا ہو، چیف جسٹس کے خلاف مہم جوئی ہو یا پھر اس کے نتیجے میں وکلا تحریک ہو یا پھر آئین توڑنے کی عدالتی کارروئی سے فرار ہو، یہ سب کچھ نو سالہ پالیسی کے تسلسل کے دوران عمل میں آیا۔ پہلے لوگ خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ یہ دس سالہ پلین کی جو بات ہو رہی ہے یہ محض افواہ ہے لیکن جب ان افواہوں کو کوئی اون کرنے کی علامتی یا تجریدی اشارے کرنے لگتے ہیں تو پھر یہ افواہ سچ کی طرح لگنے لگتی ہے۔

اب کی بار بھی اللہ کرے کہ یہ جمہوری المیے کی بات افواہ ہو پر سیاسی تیور طویل مدتی لائن اف ایکشن کی جانب بڑھنے کا اشارہ ہے۔ لگتا ہے ہم ایک بار پھر ٹاٹ کے سکول والے پہاڑوں کی گردان کے لئے گلے صاف کرنے کیے لئے لائن حاضر ہو رہے ہیں اور دو دونے چار کے بعد پانچ دونے دس کے تسلسل کا پہاڑا اونچی آواز سے بولنے والے ہیں۔ اور اس کے بعد اگلی صبح تک چھٹی ہو جائے گی لیکن اس بار پی۔ ٹی ٹیچر باوردی درست نہیں ہوں گے بلکہ بے وردی چست ہوں گے جامہ ان کا ہمارا ہوگا لیکن ان کے پاس اقامہ کسی اور کا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).